ہجر کی شام دھیان میں رکھنا
ہجر کی شام دھیان میں رکھنا اک دیا بھی مکان میں رکھنا آئینے بیچنے کو آئے ہو چند پتھر دُکان میں رکھنا ایک دنیا یقیں سے روشن ہو ایک عالم گمان میں رکھنا جب زمیں کی فضا نہ راس آئے آسماں کو اْڑان میں
Read Moreتازہ ترین
ہجر کی شام دھیان میں رکھنا اک دیا بھی مکان میں رکھنا آئینے بیچنے کو آئے ہو چند پتھر دُکان میں رکھنا ایک دنیا یقیں سے روشن ہو ایک عالم گمان میں رکھنا جب زمیں کی فضا نہ راس آئے آسماں کو اْڑان میں
Read Moreچلو پِھر سے کرتے ہیں اِبتدا۔۔۔ چلو پِھر نِکلتے ہیں کھوجنے۔۔۔ کِسی تازہ رَنگِ بہار کو کِسی گُل کدے کے نِکھار کو کِسی مِہرباں کسی یار کو۔۔۔ چلو ڈھونڈیں کُنجِ سُکوں کوئی کوئی نرم گوشۂ دلبری
Read Moreمحبت کے تعاقب میں۔۔۔۔ بالائے طاق رکھ دی تھی۔۔۔۔ انا اپنی۔۔۔ خودی اپنی۔۔۔ مجھے یہ خوش گمانی تھی۔۔۔ کہ تم میری۔۔۔صداؤں پر۔۔۔ کسی لمحہ تو پلٹو گے۔۔۔ کسی پل ۔۔۔ مڑ کے دیکھو گے۔۔۔ بالآخر لوٹ آؤ گے ۔۔۔
Read Moreچاہت کے صبح و شام محبت کے رات دن ’’دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن‘‘ وہ شوقِ بے پناہ میں الفاظ کی تلاش اظہار کی زبان میں لُکنت کے رات دن وہ ابتدائے عشق، وہ آغازِ شاعری وہ دشتِ جاں میں پہلی
Read Moreدیدۂ تر میں رہنا سیکھ خواب نگر میں رہنا سیکھ پانی پر مت محل بنا ریت کے گھر میں رہنا سیکھ پاؤں میں منزل باندھ کے چل اور سفر میں رہنا سیکھ دشتِ طلب کے پار اُتر راہ گزر میں رہنا سیکھ
Read Moreکبھی رک گئے کبھی چل دیئے کبھی چلتے چلتے بھٹک گئے یونہی عمر ساری گزار دی یونہی زندگی کے ستم سہے کبھی نیند میں کبھی ہوش میں وہ جہاں ملا اسے دیکھ کر نہ نظر ملی نہ زباں ہلی یونہی سر جھکا کر گزر گئے
Read Moreچند ہی روز میں احمد بشیر کو اس بھید کا پتہ چل گیا کہ ابنِ انشاء کو خودکشی کے دورے پڑتے ہیں۔ ایک روز احمد بشیر نے برسبیل تذکرہ سرسری انداز میں بات چھیڑی، کہنے لگے : ” یار مجھے خودکشی کے دورے
Read Moreاس کا نام بولا ہے۔ جب یہ پیدا ہوا اس کا باپ بیس ہزار روپے سالانہ کماتا تھا۔ نابینا بچہ دیکھ کر لوگوں نے مشورہ دیا کہ اس سے جان چھڑا لو اسے کہیں ادارے میں چھوڑ آو لیکن باپ نہ مانا۔ دسویں کلاس میں
Read Moreموٹیویشنل سپیکرز بڑے بڑے ہوٹلوں میں ٹو پیس پہن کر ، اے سی والے کمروں میں اچھل اچھل کر لیکچر دیتے ہیں۔ آپ ے کبھی کسی موٹیویشنل سپیکر کو کوئلے کی کان کے دہانے پر کھڑے یا کسی زیر تعمیر سڑک کے کنارے
Read Moreعمر کے چالیسویں سال میں سکول کے زمانے کے چند دوست کافی بحث مباحثے اور باہمی نقاش کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ ساحل سمندر پر واقع "اوشن” ریسٹورنٹ میں دوپہر کے کھانے پر مل بیٹھنے کا
Read More