ضروری تو نہیں از قلمکار

میں بتا دوں تمہیں ہر بات ضروری تو نہیں
آخری ہو یہ ملاقات ضروری تو نہیں

جیت جانا تُمہیں دُشوار نہیں لگتا تھا
آج بھی ہو گی مجھے مات ضروری تو نہیں

آدمی فہم و ذکاء سے ہے مزین لیکن
بند ہو جائے خرافات ضروری تو نہیں

دِل کی راہوں پہ کڑا پہرا ہے خوش فہمی کا
مُجھ سے کھیلیں میرے جذبات ضروری تو نہیں

امتحاں گاہ سے تو جاتے ہیں سبھی خُوش ہو کر
ٹھیک ہوں سب کے جوابات ضروری تو نہیں

ممتحن میں تو تیرے نام سے لرزاں تھی مگر
تیرے تیکھے ہوں سوالات ضروری تو نہیں

مُجھ کو اِنسان کی قدریں بھی بہت بھاتی ہیں
بیش قیمت ہوں جمادات ضروری تو نہیں

یوں تو زر اور زمیں بھی ہیں مگر عورت ہو
باعثِ وجہ فسادات ضروری تو نہیں

Facebook Comments

POST A COMMENT.