من مٹی” ہے کم بخت تو نے پی ہی نہیں”

”من مٹی” کا لفظ سنتے ہی عجیب سی کیفیت کا احساس ہوتا ہے اوربے اختیار یہ دل چاہتا کہ اس کیفیت کو اور محسوس کیا جائے اور اس کی گہرائی دیکھی جائے ۔ یہی کچھ احساس میرے بھی تھے جب میں نے پہلی بار من مٹی کا نام سنا اور اس کے کچھ اقباسات نظروں سے گزرے۔ واجد ابرار کو میں جاننے کا دعویٰ تو نہیں کرتا مگر جتنا میں اس کو جانتا ہوں اس لحاظ سے جب واجد ابرار نے اپنی پہلی کتاب مجھے پڑھنے کو دی تھی تو میں نے بطور ایک دوست کے نہیں بطور ایک ناقد کے طور پر اور ادب کے طالب علم کی حثیت سے جتنا میرا تھوڑا بہت علم تھا اس لحاظ سے میں نے بہت تنقید کی۔ مگر ایک بات جو مستقل طور پر میں نے تسلیم کی اور پھر بھی آج تسلیم کر رہا ہوں کہ یقینا کچھ خامیاں پہلے بھی تھیں اور اب بھی ہوں گی مگر واجد ابرار میں مستقل مزاجی اورذوق نظر بہت اعلیٰ قسم کا ہے ۔ اس بنیاد پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس نے نہ صرف میری بے جا تنقید کو خوش دلی سے سہا بلکہ اس میں سے بہت ساری چیزوں پر عمل بھی کیا اور من مٹی جیسا ناول لکھ ڈالا۔ من مٹی کو میں نے اس وقت سے پڑھنا شروع کیا جب کہ اس کہانی کے تانے بانے واجد ابرار نے بننے شروع کئے تھے اور اس کا وجود صرف اور کاپی پر موجود تھا۔ جس کو پڑھنا ہی ڈاکٹر کے نسخے کے پڑھنے کے مترادف تھا مگر میں نے یہ کام بخوبی سرانجام دیا۔ پھر جب اس کو میں نے کتابی صورت میں ڈھلتے دیکھا اور پڑھنا شروع کیا تو میں نے بے ساختہ کہا کہ واجد ابرار کے پاس جو خوبی ہے وہ ان کا شوق مطالعہ ہی نہیں ، ان کا مشاہدہ اور پھر اس مشاہدہ کو اس طرح سے بیان کرنا کہ ہر ایک بات ، ہر ایک فقرہ ، ہر ایک ڈائیلاگ ،ہر ایک حرف کا الگ معنی ، کیفیت اور احساس ہو۔ الفاظ لکھنے والے تو بہت ہیں مگر ان الفاظوں کو احساسات کا جامہ جب ہی پہنایا جا سکتا ہے جب ان الفاظوں کو لکھتے وقت آپ نے اپنا خون جگر اور وقت اور احساس صرف کئے ہوں۔ میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ جب میں نے یہ پیشن گوئی کی تھی اس کتاب کو وہی پڑھے گا جو احساسات رکھتا ہو گا اور وہ اس ناول کے ہر فقرے ، ہر لائن کو انجوائے کریں گے اور ان کی گہرائی کا اندازہ لگا کر ان کی کیفیت کا اندازہ آپ نہیں لگا سکیں گے ۔ میرے ان الفاظوں پر واجد ابرار ہنس دیا تھا۔ اب جب میں دیکھتا ہوں کہ ان گنت لوگ من مٹی کو پسند کر رہے ہیں اور اس پر اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں تو میں بہت خوش ہوں کہ میں نے جو محسوس کیا بالکل ویسا ہی میرے سامنے ہو رہا ہے۔ اکثر لوگوں نے بھی اظہارخیال کیا کہ واجد ابرار تو ایک نیا نام ہے ناول نگاری میں ابھی اس نے اس سمندر میں قدم ہی رکھا ہے اور ابھی اس کو بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے تو میں ان سب کو کہنا چاہتا ہوں کہ ضروری نہیں ہوتا ہے کہ انسان کا دماغ اس کی عمر کے حساب سے سوچتا اور دیکھتا ہوں کبھی کبھی 10 سال کی عمر میں 80 سال کا دماغ اور 80 سال کی عمر میں 10 سال کا دماغ ہوتا ہے ۔ اتنے اچھے فقرے ، اتنے اچھے گندھے ہوئے ڈائیلاگ ، اتنا اچھا ماحول جیسے "محبت کا سفر بہت مشکل ہوتا ہے اس میں چلنے والا اپنے پیروں کے نشان باقی نہیں چھوڑتا ، ایک بار بھٹک جائے تو وہ واپس نہیں مڑ سکتا ” اس میں واضح طور پر مصنف کی قوت مشاہدہ ، قوت بیان اور الفاظ کا چنائو دیکھا جا سکتا ہے اور میں بجا طور پر کہہ سکتا ہوں کہ یہ الفاظ کسی بھی اچھے ناول نگار کے الفاظ ہو سکتے ہیں۔
مجھے تو اب یہ بھی لگ رہا ہے کہ اتنی پسندندگی کا اندازہ تو خود واجد ابرار نے بھی لگایا تھا اس لئے جب میں نے یہ بھی کہا تھا کہ عین ممکن ہے کہ اس کا دوسرا ایڈیشن آپ کو پبلش کرنا پڑے تو وہ پھر ایک بار ہنس دیا تھا۔ مگر مجھے کیوں یہ لگتا ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ ایسا کرنا پڑے۔
کہانی کو بیان کرنے کا سلیقہ اور کس طرح قاری کو آخر تک جوڑ کر رکھنا۔ ولی ، شاویز ، عبیرہ اور دوسرے کرداروں کے ساتھ انصاف کرنا کہ قاری کو آخری لمحے تک احساس نہ ہونے پائے کہ آخر میں کیا ہونے والا ہے اور یہی واجد ابرار نے کر دکھایا ہے۔ مجھے تو اس کے اب تیسرے ناول کا انتظار ہے ۔ اپنے الفاظ کا اختتام میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا داغ دہلوی نے کیا خوب کہا ہے کہ
لطف مئے تجھ سے کیا کہوں زاہد ہے کم بخت تو نے پی ہی نہیں

Facebook Comments

POST A COMMENT.