
مجھے تو اب یہ بھی لگ رہا ہے کہ اتنی پسندندگی کا اندازہ تو خود واجد ابرار نے بھی لگایا تھا اس لئے جب میں نے یہ بھی کہا تھا کہ عین ممکن ہے کہ اس کا دوسرا ایڈیشن آپ کو پبلش کرنا پڑے تو وہ پھر ایک بار ہنس دیا تھا۔ مگر مجھے کیوں یہ لگتا ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ ایسا کرنا پڑے۔
کہانی کو بیان کرنے کا سلیقہ اور کس طرح قاری کو آخر تک جوڑ کر رکھنا۔ ولی ، شاویز ، عبیرہ اور دوسرے کرداروں کے ساتھ انصاف کرنا کہ قاری کو آخری لمحے تک احساس نہ ہونے پائے کہ آخر میں کیا ہونے والا ہے اور یہی واجد ابرار نے کر دکھایا ہے۔ مجھے تو اس کے اب تیسرے ناول کا انتظار ہے ۔ اپنے الفاظ کا اختتام میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا داغ دہلوی نے کیا خوب کہا ہے کہ
لطف مئے تجھ سے کیا کہوں زاہد ہے کم بخت تو نے پی ہی نہیں
POST A COMMENT.