معصومیت بھرے پرانے دور میں *الماریوں میں اخبارات بھی انگریزی کے بچھائے جاتے* تھے کہ ان میں مقدس کتابوں کے حوالے نہیں ہوتے۔
چھوٹی سے چھوٹی کوتاہی پر بھی کوئی نہ کوئی *سنا سنایا خوف* آڑے آجاتا تھا۔۔۔
*زمین پر نمک یا مرچیں گر جاتی* تھیں تو ہوش و حواس اڑ جاتے تھے کہ *قیامت والے دن آنکھوں سے اُٹھانی* پڑیں گیں۔
*گداگروں کو پورا محلہ جانتا* تھا اور گھروں میں ان کے لیے خصوصی طور پر *کھلے پیسے* رکھے جاتے تھے۔
*محلے کا ڈاکٹر* ایک ہی سرنج سے *ایک دن میں پچاس مریضوں کو ٹیکے* لگاتا تھا، لیکن مجال ہے کسی کو کوئی *انفیکشن* ہو جائے۔
*یرقان یا شدید سردرد* کی صورت میں مولوی صاحب *ماتھے پر ہاتھ رکھ کر دم* کردیا کرتے تھے اور بندے بھلے چنگے ہوجاتے تھے۔
گھروں میں *خط* آتے تھے اور جو لوگ پڑھنا نہیں جانتے تھے وہ *ڈاکئے سے خط پڑھواتے* تھے ۔ ڈاکیا تو گویا *گھر کا ایک فرد* شمار ہوتا تھا ‘ خط لکھ بھی دیتا تھا‘ پڑھ بھی دیتا تھا اور لسی پانی پی کر سائیکل پر یہ جا وہ جا۔
*امتحانات کا نتیجہ* آنا ہوتا تھا تو *’نصر من اللہ وفتح قریب‘* پڑھ کر گھر سے نکلتے تھے اور خوشی خوشی *پاس ہوکر* آجاتے تھے۔
یہ وہ دور تھا جب لوگ کسی کی بات سمجھ کر *’’اوکے‘‘* نہیں *’’ٹھیک ہے‘‘* کہا کرتے تھے۔
موت والے گھر میں سب محلے دار *سچے دل سے روتے* تھے اور خوشی والے گھرمیں *حقیقی قہقہے لگاتے* تھے۔
ہر ہمسایہ اپنے گھر سے *سالن کی ایک پلیٹ ساتھ والوں کو* بھیجتا تھا اور اُدھر سے بھی پلیٹ خالی نہیں آتی تھی۔
میٹھے کی تین ہی اقسام تھیں۔۔۔ *حلوہ، زردہ چاول اور کھیر*
*آئس کریم* دُکانوں سے نہیں لکڑی کی بنی ریڑھیوں سے ملتی تھی، جو میوزک نہیں بجاتی تھیں۔
گلی گلی میں *سائیکل کے مکینک* موجود تھے جہاں کوئی نہ کوئی محلے دار قمیص کا کونا منہ میں دبائے ‘ *پمپ سے سائیکل میں ہوا بھرتا* نظر آتا تھا۔
*نیاز* بٹتی تھی تو سب سے *پہلا حق بچوں کا* ہوتا تھا۔
ہر دوسرے دن کسی نہ کسی گلی کے کونے سے آواز آجاتی *’’کڑیو‘ منڈیو‘ شے ونڈی اے، لے جاؤ‘۔* اور آن کی آن میں بچوں کا جم غفیر جمع ہوجاتا اور کئی آوازیں سنائی دیتیں *’’میرے بھائی دا حصہ وی دے دیو‘۔*
دود ھ کے پیکٹ اور دُکانیں تو بہت بعد میں وجود میں آئیں‘ پہلے تو لوگ *’بہانے‘* سے دودھ لینے جاتے تھے۔
گفتگو ہی گفتگو تھی‘ باتیں ہی باتیں تھیں‘ *وقت ہی وقت* تھا۔
*گلیوں میں چارپائیاں* بچھی ہوئی ہوتی تھیں‘ *محلے کے بابے حُقہ پی رہے ہوتے تھے* اور پرانے بزرگوں کے واقعات بیان کر رہے ہوتے تھے۔
جن گھر وں میں *ٹی وی* آچکا تھا انہوں نے اپنے دروازے محلے کے بچوں کے لیے ہمیشہ کھلے رکھے۔
*مٹی کا لیپ کی ہوئی چھت* کے نیچے چلتا ہوا پنکھا سخت گرمی میں بھی ٹھنڈی ہوا دیتا تھا۔
*لیکن۔۔۔*
پھر اچانک *سب کچھ بدل گیا* ۔
ہم *قدیم* سے *جدید* ہوگئے۔
اب *باورچی خانہ سیڑھیوں کے نیچے* نہیں ہوتا۔
کھانا بیٹھ کر نہیں پکایا جاتا۔ *دستر خوان* شائد ہی کوئی استعمال کرتا ہو۔
*منجن سے ٹوتھ پیسٹ تک کے سفر* میں ہم نے ہر چیز بہتر سے بہتر کرلی ہے، لیکن پتہ نہیں کیوں اِس قدر سہولتوں کے باوجود ہمیں گھر میں *ایک ایسا ڈبہ*
ضرور رکھنا پڑتا ہے،
جس میں، *نفرتیں* *حسد* *قطع رحمی*
*ڈپریشن‘* *سردرد‘* *بلڈ پریشر‘* اور *وٹامنز* کی گولیاں
ہر وقت موجود ہوں۔۔۔
منقول
#لکھاریاں,
#قلمکاریاں,
#فنکاریاں,
#اردو_ادب,
#اردو_شاعری,
#اردو_کی_بہترین_شاعری،
#بزم_سخن،
#اہل_سُخن،
#بزمِ_احباب،
#قلمکار،
#قلمکار_سٹوڈیو
اُردو ادب ، اردو شاعری ، اردو نثر پر بہترین ویڈیوز حاصل کرنے کےلئے ہمارا چینل سبسکرائب کریں
قلمکار سٹوڈیو ۔ اردو ادب میں انفرادیت کا معیار
https://www.youtube.com/channel/UCvLqVBigQH-opDYMn5Nw_wg
https://www.facebook.com/QalmkarStudio
https://www.pinterest.com/kalmkar786/qalmkar-studio
https://www.facebook.com/LikhariOnline
https://www.instagram.com/qalmkarstudio
POST A COMMENT.