لازم ہے قومِ موسیٰ کو تم بھی دعائیں دو
اے اہلِ ساگ تم پہ اتاری ہیں سبزیاں
امی جی کا ست رنگا ساگ تو بے حد مشہور تھا۔ باتھو، سرسوں، تارا میرا، قلفہ یا خرفہ، مکوہ، میتھی، مسور کا ساگ، چولائی، کینچ مینچ، سوئے، مولی شلغم کے پتے، ہلدی کے پتے، سہانجنے کے پتے اور خدا جانے ساگ کے نام پر کیا کیا منگوایا جاتا۔ حکما کی ہدایات کے تحت ساگ کی مختلف اقسام کو پکایا جاتا۔ سہانجنے کے پتوں کے پکوڑے تک تل دیے گئے۔ اکثر ساگ کو اکٹھا ہی ابال لیا جاتا اور پھر اس میں طرح طرح کے بگھار ڈال کر اس کی رنگا رنگی میں اضافہ کیا جاتا۔ ساگ تو ایک طرف رہا، رنگا رنگ ساگ کے بیج بھی استعمال کیے جاتے۔
ابا جی ایک اور منہ بولی بیٹی، باجی خورشید، قریب کے ڈیرے سے آتیں۔ کبھی ان کی امی اور بھانجی ساتھ ہوتیں، بڑے کھیس میں رنگا رنگ ساگ بھرا ہوتا۔
وہ ایک مکمل دیہاتی زندگی کا استعارہ تھیں۔ مجھے ان کی سادگی اور بول چال بہت اچھی لگتی۔ ان کے گھر کچھ مہمان لاہور سے آئے۔ والدہ سادگی سے بولیں…
’’رنگ دیکھو ان کا، پیلا پھَٹک، نہ روح نہ رحمت، اب کہا ہے کہ کھیتوں سے سبزی توڑو، ٹیوب ویل پر دھوکر کھالو، دودھ پیو، گڑ کھائو، دیکھنا تین ہفتوں میں رونق آ جائے گی۔‘‘ واقعی وہ بچی جب واپس جانے لگی تو اس کی رنگت میں نمایاں فرق تھا۔
ہمارے گھر میں دال ساگ، یا بقول ا می جی کے دال پات، ہمیشہ دیسی اور تازہ آتا، کبھی کوئی مریض مولیوں، گوبھی اور پالک کا ریڑھا لاد لاتا، کبھی کوئی سٹیل کے بڑے سے ڈبے میں دودھ، گھر کا مکھن، ماکھیوں شہد اٹھا لاتا۔
ایک بزرگ خاتون گجرات سے زندہ مرغا لے کر آئیں، ساتھ ان کی دھان پان سی بہو تھیں جو ایف ایس سی کرکے رواج کے مطابق پھوپی کے گھر بیاہی گئیں۔ روایتی سختی کے مطابق اسے برقع پہنایا گیا۔ اس کی پھوپی جان امی جی کے ساتھ کسی کے گھر تعزیت کو گئیں۔ اب وہ رو رو کر ابا جی کو داستان سنا رہی تھیں کہ سارا رستہ مرغا بس میں بانگیں دیتا آیا، پھر میرے برقعے کے نقاب والی ایک تنی ٹوٹ گئی، پھوپھی جان نے مرغا مجھے تھما رکھا تھا۔ ایک ہاتھ سے میں نقاب سنبھالتی رہی، دوسرے سے مرغے کی ٹانگیں قابو کرنے کی کوشش کرتی رہی۔
ابا جی نے بہت تسلی دی، ’’بیٹا دیکھو، بزرگوں کو بعض اوقات سمجھ نہیں آتی۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ آپ کی صحت کے لیے ضروری ہے کہ وہ آپ کو ملازمت کی اجازت دیں۔ قریبی سکول میں ہی چلی جایا کرو، بس گھر سے ذرا نکلو۔‘‘
خدا جانے اس کہانی کا کیا ہوا لیکن مجھے وہ منحوس، مردود مرغا ایک آنکھ نہ بھایا، لال کلغی لہراتا، گردن ٹیڑھی کرکے آہٹیں لیتا نابکار مرغا جو ایک عفیفہ کے نقاب میں جھانکتا اسے تماشہ بناتا رہا۔ جب اسے پکایا گیا تو میں نے احتجاجًا کھانا نہیں کھایا۔
میری دلی دعا تھی کسی طرح کوئی بلی اس کی تکہ بوٹی کر دیتی۔ لیکن ان خالہ جی نے شور مچایا، آپا پکائیں ناں مرغا، دیسی گھی ڈالیں۔
ساگ پکنے کا پروجیکٹ شروع ہوتا تو مجھے مصیبت پڑجاتی۔ پورے گھر میں ایک عجیب سی ساوی ساوتری مہک دندناتی رہتی۔
امی جی کہتیں ’’اس ساگ کو برابر کی گڈی بناکر کاٹے بغیر کھلے پانی میں دھوتے ہیں۔‘‘
شاید محبوب کی زلفوں کی طرح سنوار سنوار کر بڑے ٹب میں ڈال کر رکھ دیا جاتا۔ سنا ہے صاف پانی میں ڈبوکر رکھنے سے اس کی غذائیت میں اضافہ ہوتا ہے۔
پھر برابر کی گٹھی اہتمام سے کاٹی جاتی۔ گھر کے پیچھے محلے میں ایک بچی اور اس کی ماں بھی مدد کے لیے آتیں۔ صحن میں چارپائی بچھاکر اس پر چادر ڈالی جاتی تو نہایا دھویا، سر منڈایا ساگ اس پر بچھا دیا جاتا۔
امی جی خاص طور پر بنوایا مٹی کا چولھا باہر منگاتیں۔ یہ چولھا ایک تانبے کے بڑے سے تختے پر تعمیر کیا گیا تھا لہٰذا اس سے محتاط رہنے کے لیے وہ اس پر نظر رکھتیں بلکہ وقفے وقفے سے دربانوں والی نظر ڈال کر ہٹو بچو کی صدا بھی لگا دیتیں۔
امی جی کے جہیز کا ایک بڑا سا گولائی لیے ہوئے دیگچہ تھا۔ اس میں بے حد احتیاط سے ساگ ڈالا جاتا کہ ایک پتہ تک نیچے نہ گرے۔ ابال آنے پر اور حجم کم ہونے پر ساتھ ساتھ مزید ساگ ڈالا جاتا۔
امی جی کی خصوصی بڑی بڑی ڈوئیاں اور مدھانیاں اسلحے کی طرح قریبی پرات میں رکھی ہوتی تھیں۔ امی جی اسے کمال محبت سے ابالتیں، رنگلی ڈوئی سے ہلاتیں، مدھانی کو گول گول گھماتیں، مکئی کا بھنا ہوا آٹا دھار بناکر گراتیں اور پھر تڑکہ یوں لگاتیں جیسے ’شریکاں نوں اَگ‘ لگائی جا رہی ہو۔
کالا زیرہ، کوٹی ہوئی سبز مرچیں، رائی کے دانے، کڑھی پتہ اور خدا جانے کیا کیا لوازمات تھالیوں میں ہوتے۔ کسی بڑے ٹیک وے کی طرح امی جی پسند کے مطابق بگھار ڈالتیں۔
آخر میں بھائی لوگوں کو دوڑایا جاتا کہ امی کی سہیلیوں کو پہنچاؤ۔ مجھے بہت زیادہ مکھن والا اور لہسن سبز مرچ کا بگھار پسند تھا۔ امی جی میری سٹیل کی تھالی پر ساگ رکھ کر ترتراتا مکھن ڈالتیں اور میں مکئی کی روٹی کے بجائے تندوری روٹی سے کھانا پسند کرتی۔
اپنی سہیلیوں کے درمیان امی جی باقاعدہ حکیم بنی ساگ کی افادیت سکھا رہی تھیں۔ کبھی تو مجھے یوں لگتا ہے کہ شاید ان حکما نے امی کو اپنا ایجنٹ رکھا ہوا ہے۔
ایک دن اپنی ایک سہیلی کو بتا رہی تھی کہ مکوہ کے ساگ پر دار چینی، اجوائن، زیرہ اور موٹی کالی الائچی کا پاؤڈر چھڑک کر کھاؤ تو یہ رِحم کی کئی بیماریوں کا علاج ہے۔ حمل کے دوران بھی صحت کی حفاظت کرتا ہے۔
’’یا اللہ! رَحم کر دیں امی، کیا ساری عمر حاملہ رہنا ہے ان عورتوں کو؟‘‘ مجھے حیرانی بھی ہوتی اور غصہ بھی آتا کہ کیوں پوری کلاس لگا لیتی ہیں امی۔
’’رِحم رہتا تو پوری عمر بدن ہی میں ہے ناں؟ آج کل کی لڑکیاں ڈھنگ کا کھانا تو کھاتی نہیں، منہ پر رنگ مل مل کر ہی حسین بنتی ہیں، جسم کے اندر کچھ طاقت ہو تو بو تھی پر نور آتا ہے۔ ساگ کھانے سے بچیوں کے کئی مسائل حل ہوتے ہیں۔‘‘
کبھی مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے ہمارے گھر میں یہ ساگ ہمارے جنازے کے ساتھ ہی نکلے گا ورنہ کبھی نہیں نکلے گا۔ ایک دن میں نے رات کا بچا ہوا ساگ امی جی کو آٹے میں گوندھتے دیکھ لیا، ’’
امی جی اتنی ملاوٹ؟ ایسا لگتا ہے کہ اس گھر میں اوڑھنا بچھونا ساگ ہے۔‘‘
لیکن جب اس آٹے کی روٹی پکاکر اوپر گھر کے مکھن کا ڈھیلہ رکھا گیا تو میں نے بھی مزے سے اڑایا۔
مجھے ساگ کی اہمیت اور افادیت اس وقت معلوم ہوئی جب اُسامہ پیدا ہوا تو اس کے پیٹ میں شدید درد رہنے لگا۔ ڈاکٹر کو کچھ سمجھ نہ آتی۔ جب وہ روتا تو میں بھی ساتھ ہی آنسو بہاتی۔
ابا جی نے کہا کہ اس کو اجوائن کے چند دانے اور سوئے کے پتے ڈال کر قہوہ پلاؤ۔ سوئے کا انگریزی نام Dill بتایا گیا جسے ڈینش میں Dild) (کہتے ہیں جو سیلری کے خاندان سے ہی وابستہ ہے۔
اس وقت مجھے معلوم نہیں تھا کہ کبھی زندگی مجھے موقع دے گی اور میں یورپی ساگ پر تحقیق کروں گی لیکن اہلِ یورپ کے پاس اہلِ پنجاب کا سا وہ ذوق شوق اور جذب و مستی کہاں جس سے سرشار ہوکر وہ کئی مہینے صرف ’’ساگیالوجی‘‘ کی دلداری کرتے گزارتے ہیں۔
ہاں مغرب نے مختلف اقسام پر ایسی شاندار تحقیق کرکے اسے منڈی میں عام کیا ہے کہ ہمارے حکما سن سن کر حیران ہوتے اور داد بھی دیتے۔
چولائی کا ساگ تو یورپ میں اعلیٰ ریستورانوں میں سلاد کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ہم اپنے بچپن میں بگڑی ہوئی بکریوں کی طرح اس رنگیلے ساگ کو کچھ سمجھتے ہی نہ تھے۔
ہماری بیٹی ایک دن بولی کہ یہاں ساؤتھ امریکہ کا خاص صحت سے بھرپور پودا ہے جسے سلاد میں ڈالا جاتا ہے۔ میں اسے اہتمام سے سرخ اور سبز پتے دھوتے دیکھتی رہی۔
’’ہمارے زمانے میں اسے چولائی کا ساگ کہا جاتا تھا اور یہ انڈیا پاکستان میں عام ملتا ہے اور اتنی بہتات ہے کہ بکریاں بھی کھانے سے انکار کر دیتی ہیں۔‘‘
’’یہ کیسے ممکن ہے امی جی، یہ تو سائوتھ امریکہ سے آیا ہے،‘‘ اس نے پلاسٹک کے لفافے پر سلاد کی تفصیل دیکھی۔ یہ دیکھیے یہ اس پر طبی تحقیق ہے۔ یہ انہضام کے عمل کو تیز کرتا ہے، یعنی ہائی بلڈ کولیسٹرول میٹابولک ڈس آرڈر، اینٹی آکسیڈنٹ، کیلشیم، پوٹاشیم میگنشیم۔۔۔ وغیرہ کے لیے اس کی افادیت دیکھیے۔‘‘ میں نے کان بند کرلیے۔ اس نے بیان جاری رکھا۔
’’ان پتوں کو انگریزی میں ’’جوزف کا کوٹ‘‘ Joseph’s coat بھی کہا جاتا ہے کیونکہ بائبل کا یہ کردار تین رنگ کا کوٹ پہنتا تھا۔ اس سلاد میں بھی یہی تین رنگ ہوتے ہیں۔ یہ سرخی مائل، سبز اور سفیدی مائل پتے مشہور ترین ماڈرن سلاد سمجھے جاتے ہیں۔‘‘
’’نہیں یہ پنجاب کا ساگ ہے‘‘ میں نے قطعیت سے کہا ’’اور انھیں رنگ برنگے ساگ کھانے کی وجہ سے پنجاب والوں کی صحت مشہور ہے اور آپ کے نانا ابو کہا کرتے تھے کہ ساگ اور دودھ غذائی اعتبار سے ایک ہی جیسی خصوصیات رکھتے ہیں۔‘‘
’’امی جی،‘‘ اس نے سلاد دھوتے دھوتے ہاتھ روک کر اور مڑ کر مجھے دیکھا ’’آپ بھی نانو کی طرح حکیموں کا ایجنٹ نہیں بن گئیں؟‘‘
میرے تجسس کو اس بی بی کی لمبی چوڑی طبی اصطلاحات نے جگا دیا تھا اور میں نے اپنی تحقیق کا آغاز کیا۔ یہ ساگ واقعی چولائی ہی تھا۔ لیکن غلط عالیہ بھی نہیں تھی۔ انگریزی میں اسے Amaranthus کہا جاتا ہے، اور انسائیکلوپیڈیا برطانیہ کے مطابق اس کی رنگ برنگی اقسام کو amaranth کہا گیا ہے۔ ہندوستان میں اسے امرناتھ یعنی چولائی کا ساگ ہی کہا گیا اور مکئی کی روٹی کے ساتھ ہی کھایا جاتا ہے۔
’’امی جی آپ یہ دلچسپ معلومات مضمون کی صورت لکھیں ناں،‘‘ ہماری صاحبزادی نے فرمائش کی۔
میں نے ایک شام دل کڑا کرکے تحقیق کی ابتدا کر ہی دی۔ انڈیا اور بنگلہ دیش میں اسے امرناتھ ساگ کہا جاتا ہے۔ اب میری دلچسپی مزید جاگی، یعنی لاطینی، رومن اور یورپ کے ممالک میں اسی نام سے معروف ساگ، انڈیا میں مذہبی تہواروں میں دیوی کے درشن میں دان کیا جاتا، پرساد کے طور پر دیا جاتا۔ وہاں بھی ساگ کے ساتھ مکئی کی روٹی ہی کھائی جاتی۔
رہی سہی کسر ہمارے عین مقابل آکر بسنے والی ہماری بنگلہ دیشی بیٹی نے نکال دی۔ وہ امرناتھ ساگ کو مچھلی اور کیلے کے پھولوں کے ساتھ پکاتی ہے۔
واقعی ساگ پر تو کتاب ہی لکھنے سے یہ سارے موضوعات بیان کیے جاسکتے ہیں۔
شیخ سعدی کے ایک مشہورِ زمانہ شعر میں کسی منچلے نے تحریف کر دی۔ اصل شعر یوں ہے
ہر گیاہے کہ از زمیں روید
وحدہ لاشریک لہ گوید
(گھاس کا ہر تنکا جو روئے زمین سے نمودار ہوتا ہے وہ وحدہ لاشریک کی وحدانیت کا اعتراف کرتا ہے)
برِصغیر کی ساگ سے جذباتی وابستگی کا تذکرہ کرتے ہوئے اس شعر کی تضمین کی گئی:
ہر گیاہے کہ از زمین روید
اہل بنگالہ ساگ می گوید
یعنی زمین سے نمودار ہونے والی ہر گھاس پھونس کو اہلِ بنگال ساگ کہتے ہیں۔
شنید ہے کہ اس کلام میں ہر پتے سے مراد ساگ لیا جائے تاکہ دنیا و عقبیٰ سنور سکیں۔
مزید اشعار پڑھنے کو ملے جن میں اہلِ ایمان ہر پتے سے مراد ساگ کا پتہ ہی لیتے ہیں۔ یوں ان کا تن اور من دونوں راضی رہتے ہیں۔
بے صدا و بے نوا و بے کلام
دے رہا ہے ذرہ ذرہ یہ پیام
پتے پتے کی یہی ہے گفتگو
اشہد ان لا الہ الا ہو
سبزۂ روئے زمیں ہے ذکر میں
محوِ حیرت غنچہ و گل فکر میں
( ابو سعید الہ بادی)
ساگ کی بین الاقوامی اہمیت کا اندازہ مجھے تب ہوا جب کوپن ہیگن ایئرپورٹ پر پاکستان سے آنے والی ایک بزرگ مسافر خاتون کی مدد کرنا پڑی۔ ان کے سامان سے سبز رنگ کا ایک بہت بڑا منجمد حالت میں ڈھیلا ملا۔ ایکسرے جیسی مشینوں سے گزرتے ہوئے یہ ڈھیلا پکڑا گیا۔ ان بزرگ خاتون کو ایک کونے پر کھڑا کرکے بات چیت جاری تھی۔ وہ بے چاری زبان نہیں بول سکتی تھی۔ وہ سمجھا نہیں پا رہی تھی کہ ان کے سامان میں یہ کیا چیز ہے۔
میں نے دخل در معقولات کرتے ہوئے افسر سے کہا کہ میں ان کی زبان جانتی ہوں اور مدد کرنا چاہتی ہوں۔ خاتون سے پوچھا گیا کہ آپ کون ہیں اور کہاں سے آئی ہیں، کس کے پاس جا رہی ہیں اور آپ کے سامان میں یہ کیا چیز ہے جس کی وجہ سے آپ کو روک لیا گیا ہے۔
’’کج وی نئیں ماڑا بچہ، سریوں ناں ساگ اے، نامرداں کی پتہ ای نئیں، خبرے کےَ لنگڑاں پیا، ایویں می کی پریشان کری چھوڑیا نیں۔‘‘
(کچھ بھی نہیں، میرا بچہ، سرسوں کا ساگ ہے۔ ان نامرادوں کو علم ہی نہیں، بلاوجہ مجھے پریشان کر دیا ہے۔)
دو لفافوں میں بند کیا ہوا سبز رنگ کا یہ ڈھیلا سرسوں کا ابلا، گھوٹا اور فریز کیا گیا ساگ ثابت ہوا
۔
مجھے ہنسی آگئی اور وہاں پر کھڑے کھڑے میرے ذہن میں اپنے گھر کے آنگن میں اس سرسوں کو کاٹنے دھونے پکانے ابالنے اور بگھار لگانے اور عقیقے کے گوشت کی طرح بانٹنے کے وہ تمام مناظر یاد آگئے جن کے اہتمام سے میری جان جلا کرتی تھی۔
میں نے افسر سے کہا کہ پریشان مت ہوں۔ یہ ہماری کلچرل سبزی ہے بلکہ اب تو قومی نشان کی طرح آپ اس کو دیکھ سکتے ہیں۔
’’لیکن یہ ہے کیا اور یہ سمگل کیوں کر رہی تھی؟‘‘ کسٹم افسر کا سوال اپنی جگہ پر تھا۔
مجھے پھر کلچر ہی کا نگینہ ٹانکتے ہوئے ہوئے آسان فہم طریقے سے سمجھانا پڑا کہ یہ ’’سینپ (sennep) کی ایک قسم ہے اور یہ بے چاری روایتی خاتون سوغات کے طور پر یہ اپنے خاندان کے لیے لا رہی تھی اور ان کو نہیں معلوم تھا کہ کسٹمز میں اس طرح کی چیزیں لانا غیر قانونی ہے۔
’’یہ کیسے ہوسکتا ہے‘‘ اس نے ہاتھ میں پکڑی چھڑی نما چیز سے ڈھیلے کو یوں ہلایا جیسے وہ مریخ سے براہِ راست زمین پر گرا کوئی مشکوک ایلین ہو اور اچانک ہی زندہ ہوکر اچھل کر اسے دبوچ نہ لے۔
’’میں نے کہا ناں، یہ مسٹرڈ کی شکل ہے اور یہ انڈس ویلی میں کاشت کیا جاتا تھا۔ اگر آپ اسے، مسٹرڈ یا سینپ سمجھنے سے گریزاں ہیں تو آپ اسے ڈینش) Grønkål Kale) سمجھ سکتے ہیں۔‘‘
’’نہیں یہ سینپ نہیں ہے۔ وہ تو زرد ہوتا ہے۔ اور فرانس کا مشہور ترین سینپ یہاں ملتا ہے تو پھر یہ وہاں سے کیوں لائی ہیں؟‘‘ اس نے پیشہ ورانہ تفتیش جاری رکھی۔
’’میں یہاں پر ترجمانی کر رہی ہوں یا نیوٹریشن پڑھانے کا فرض انجام دینا ہے؟‘‘ میں نے شگفتگی سے کہا،
’’اچھا ایسا کرو، تم اس کو لیبارٹری میں بھیج دو۔ خاتون کی پاسپورٹ کی کاپی لے لو اور اگر یہ خطرناک ثابت ہوا تو پھر اس کے نتائج مسافر کو بھگتنا پڑیں گے اور قانون کی خلاف ورزی کرنے پر البتہ آپ ان کو جرمانہ کرسکتے ہیں، بلکہ جرمانے کے طور پر آپ یہ ساگ ہی لے لیجیے کیونکہ ان کے خاندان کے لیے یہ رقم دینے سے زیادہ دلخراش ہوگا۔‘‘
اس کے ماتھے کی شکن کم ہوگئی اور ایک خفیف سی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے کہا کہ ان خاتون کو بتا دو کہ آئندہ اس طرح کی کوئی چیز اپنے سامان میں نہیں لائیں گی۔ ’’مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ اسلام آباد سے اس کی نشان دِہی کیوں نہیں کی گئی؟‘‘
’’تو کیا تم اس کو پھینک دو گے؟‘‘ میں نے ان خاتون کا بے یقین چہرہ دیکھ کر کہا۔ وہ شاید دل ہی دل میں ہماری گفتگو سے اور تاثرات سے کچھ اندازہ لگا رہی تھی
۔
افسر نے چند لمحے کے لیے سوچا اور پھر چھڑی سے ڈھیلے کو خاتون کی جانب دھکیل دیا۔
’’مبارک ہو‘‘ میں نے کہا۔ ’’اب اسے اٹھائیے اور واپس اپنے تھیلے میں ڈال لیجیے لیکن آئندہ خیر سگالی کی یہ سوغات مت لائیں۔‘‘
’’آئندہ میں آؤں گی ہی نہیں‘‘
انھوں نے دونوں ہاتھوں سے اپنی چادر سر پہ جمائی، کانوں کو باہر نکالا اور ناراضگی سے افسر کی طرف دیکھنے لگیں،
’’گولی جوگا‘‘
مجھے اس سیدھی سادی دیہاتن کو دیکھ کر پنجابی کا مشہور گیت یاد آگیا جس میں ساگ، مکھن اور مکئی کی روٹی کو دیہی رومانویت کے ساتھ جوڑ دیا گیا تھا۔
گندلاں دا ساگ، تے مکھن مکئی
رِھن کے لہائی آں میں سجناں دے لئی
ککڑاں دی بانگ ویلے، تائیاں نیں تندوریاں
تیرے لئی میں، لک لک کٹیاں نے چوریاں
برکی کھوانی آں، تے انج چک وڈھناں ایں
دکھدیاں اگلیاں، تے کرنی آں ہئی
شاعری، بولیاں، لوک گیت اپنے ماحول اور موضوعات کو زندہ رکھتی ہے۔ ایک وقت تھا کہ دنیا کا آغاز، نیزہ اور بھالا لیے شکار کی تلاش میں جنگل نوردی تھا تاکہ شکم کی آگ بجھ سکے۔ اب وہ وقت آن لگا ہے کہ شکم سیری کے بعد کی فربہی سے نمٹنے کے لیے ورک آئوٹ اور جمنازیم کا فیشن چل نکلا ہے۔ ماحولیات سے آگاہ سائنسدان چلا چلاکر آنے والی قیامت کی خبر دیتے اور جہان والوں کو ساگ پات کی طرف ہنکا ہنکاکر لے جانے کی کوشش میں ہیں۔ نصیر احمد ناصر کی ایک شاندار نظم پیشِ خدمت ہے:
آزوقہ
ایک زمیں کے ٹکڑے سے بھی
کیا کچھ حاصل ہو سکتا ہے !
گندم، چاول، دال، کماد
سبزی، پتے، ساگ، سلاد
چوکھر، بھوسہ، چارا، کھاد
جس کو روگ اناج کا لاگے
چین سے وہ پھر سوئے نہ جاگے
خواب، حقیقت سب کچھ تیاگے
چند نوالے حلق میں ڈالے
تَل تَل ناچے، پَگ پَگ بھاگے
پیٹ کی خاطر خوب اگاؤ
اپنے دیس کی شان بڑھاؤ
دھکے کھا کر، آنسو پی کر
درد کماؤ، دکھ بسراؤ
دور دساور سے آتے ہیں
شہد، پنیر، کریکر، کافی
جیلی، جام، مربے، کیچپ
توتِ فرنگی، تونا مچھلی
سب کچھ کھاؤ، سب کچھ کھاؤ
ایک گلوب کے شہری سارے
بھوکے ننگے پیاس کے مارے
سرخ سیاست، زرد معیشت
ڈھلتی عمریں، چڑھتے بھاؤ
آنسو، آہیں، غم اور گھاؤ
ایک زمیں کے ٹکڑے سے بھی
کیا کچھ حاصل ہو سکتا ہے!!
( نصیر احمد ناصر )
برگد از صدف مرزا
#لکھاریاں,
#قلمکاریاں,
#فنکاریاں,
#اردو_ادب,
#اردو_شاعری,
#اردو_کی_بہترین_شاعری
#غمگین_شاعری
#قلمکار
اُردو ادب ، اردو شاعری ، اردو نثر پر بہترین ویڈیوز حاصل کرنے کےلئے ہمارا چینل سبسکرائب کریں
قلمکار سٹوڈیو ۔ اردو ادب میں انفرادیت کا معیار
https://www.youtube.com/channel/UCvLqVBigQH-opDYMn5Nw_wg
https://www.facebook.com/QalmkarStudio
https://www.pinterest.com/kalmkar786/qalmkar-studio
https://www.facebook.com/LikhariOnline
https://www.instagram.com/qalmkarstudio
POST A COMMENT.