خدمت ، خلوص اور خاموشی

محترمہ صدف مرزا کی ایک خوبصورت تحریر جسے ہر مرد و زن کو پڑھنا ہی نہیں سیکھنا بھی چاہیے ۔
"”بہن صدف مرزا ذرا میری بات سنیئے "”
امام صاحب نے مجھے عورتوں اور مردوں کہ درمیان لگائی گئی عارضی لکڑی کی دیوار کے پاس بُلا کر کہا
… میں کئی راتوں کی جاگی ہوئی مہمان کی آؤ بھگت میں مصروف
اور بیٹی کے پرایا ہو جانے اور قسمت کے بند گنبد کے باہر غیر یقینی کے عالم میں بے بس کهڑے ہونے کے احساس کے ساتھ مسلسل بر سرِ پیکارتھی…
جلدی سے اُٹھ کر گئی۔
باجی ، آپ ٹھیک ہیںَ‘‘‘اُنھوں نے بے حد پر سکون لہجے میں پوچھا..
’’جی بھائی آپ کی دعا ہے‘‘
باجی آپ نے سوچا ہے کہ بیٹی کا حق مہر کیا مقرر کرنا ہے ابھی لینا ہے …..لکھوانا ہے …. کتنا ہو گا
آپ کی لڑکے والوں سے کوئی بات ہوئی ہے نہیں؟
ہائیں۔۔یہ باتیں بھی کرنا ہوتی ہیں، بھک سے میرا دماغ اڑ گیا۔
پتا نہیں، یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں نہ ہی اس بارے میں کسی سے کوئی بات ہوئی‘‘ میں واقعی حواس باختہ ہو گئی
اُنہوں نے ایک لمحے کہ لیے کچھ سوچا پھر بولے ’’ آپ بات کیجئے بیٹے والوں سے، میں انتظار کرتا ہوں‘‘
نکاح سے چند منٹ پہلے اس اہم بات کا تذکرہ. ..مجھے لگا جیسے میری روح زمین وآسماں کہ درمیان کہیں معلق ہے
خیر میں نے بچوں سے بات شروع کی… میرے قد سے بالشت بهر اونچے بیٹے نے میرے شانوں پر بازو پھیلائے اور مسکرانے لگا
امی.. فکر کی کیا بات ہے… یہ پرانی باتیں ہیں .. بلا وجہ کے جهگڑے…‘‘
’’حق مہر ….‘‘ دلہن صاحبہ کو ہنسی آ گئی
امی حق مہر کی کیا بات ہوئی بھلا کوئی چودہ صدیاں پہلے کا زمانہ ہے۔ جب مرد جنگوں میں شہید ہوتے تھے اور عورت کو اقتصادی طور پر مظبوطی درکار تھی۔ ‘‘
اس وعظ پر میرا جی چاہا سفید کپڑوں میں ملبوس اس لڑکی کو ایک زبردست سی چپت لگاؤں۔
مسجد میں موجود سب مہمان ہمیں دیکھنے لگے
…’’یہ کیا بات ہوئی۔۔۔
مجهے واقعی اپنی کم عقلی اور ان دونوں کی غیر سنجیدگی پر تاؤ آنے لگا. ..
مجهے خود ہی اس موضوع پر بات کر لینی چاہئے تهی..
.لیکن میرے ذہن میں حق مہر کوئی مسئلہ نہیں تها نہ ہی میری بیٹی کی نئی فیملی نے اسے کوئی جواز بنایا. حتی کہ جرمنی سے مبین بیٹے کے ماموں مظہر چوہدری شادی سے پہلے تشریف لا چکے تھے۔ ہشاش بشاش اور خوش مزاج مظہر بھائی نے سائے اپنی بہو کے آگے پیچھے پِھرنے کے کوئی کام نہیں کیا۔ نہ ہی کسی بھی قسم کا کوئی ایسا مسئلہ، کوئی شرط نامہ، کوئی سیکورٹی ہمارے درمیان آئی۔
بہر کیف دولہے والوں بات شروع ہو گئی۔ مظہر بھائی اور بشری جی بلا جھجھک بولے کہ یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ، جو آپ حکم کریں۔
اگرچہ دونوں خاندانوں کی اس بارے میں کوئی گفتگو نہیں ہوئی تهی لیکن ان کی جانب سے اتنا خلوص اور ایسی اصرار بهری رضامندی تهی کہ ہمیں کسی بهی لمحے کسی بهی بے یقینی اور عدم تحفظ کا احساس نہیں ہوا. .
.مزید یہ کہ میرا نکتہ نظر صریح اور واضح تها کہ ان بچوں نے زندگی گزارنی ہے ان کے لیے سہولتیں اور آسانیاں پیدا کرنی چاہئیں۔
.دلھن سے کہا گیا کہ جو آپ چاہیں حق مہر مقرر کریں۔ جواب میں دلہن نے پہلے حیران اور پھر محظوظ ہو کر دانت نکالے۔
"یہ مہر وہر سب ایسے ہی باتیں بنی ہوئی ہیں دلہن صاحبہ نے ارشاد فرمایا،
میں ان چیزوں پر یقین نہیں رکھتی
جب قران و سنت میں ان باتوں کا حکم آیا تها تو وہ عورت کی اقتصادی مضبوطی اور گارنٹی کے لیے تها چونکہ تعلیم نہیں تهی اور مرد چار شادیاں کرنے کو ہمہ وقت تیار تهے‘‘ اس نے جیسے مجهے سمجهایا…
میں اس لیکچر کے لیے تیار نہیں تهی..میں نے ناراضگی سے اسے دیکها، ’
’ یہ کیا وقت ہے نادر خیالات کے اظہار کا۔
امی…. آپ کا حق مہر کتنا مقرر کیا تها نانا ابو نے…‘‘
اس نے میرے کندهے پر جهک کر سر گوشی کی….
یہ کونسا موقعہ ہے گڑهے مردے اکهیڑنے کا‘‘.
بتائیں نا…. آپ تو ملک سے باہر جا رہی تهیں… کوئی گارنٹی ؟
ایک ہزار روپے…
"”اچها…
وہ ہنس دی…
امی جی فی زمانہ تو عورت خود مرد کے برابر کماتی ہے اب اس کی ضرورت وہ نہیں جو چودہ سو سال پہلے مردوں کے جنگ میں جانے اور بیوہ ہونے کے بعد اس کے بھائیوں اور خاندان کے ہاتھوں جائیداد کا استحصال ہونے پر ہوتا تھا
اسے آنے والے وقتوں کی پریشانی سے "
بچانے کے لیے قوانین بنا دئیے گئے ایک مکمل ضابطہ دیا گیا
میں حیران ہو کر اس کا منہ دیکھتی رہی
امام سراج صاحب جوکوپن ہیگن کہ سب سے بڑے اسلامک ادارہ منھاج القرآن کے انتہائی باشعوراور نوجوانوں کہ پسندیدہ امام ہیں
.اور اپنے مزاج اور محبت کیلئے ان لوگوں میں بہت مقبول ہیں
اس دن ان کی طبیعت بہت ناساز تهی لیکن تشریف لے آئے…
وہ نہ صرف یورپی ماحول کو سمجهتے ہیں بلکہ یہاں کی طرز معاشرت اور نوجوانوں کے ذہن کے مطابق ان سے بات کرتے ہیں. میں نے اپنی طویل بیماری کے بعد اس ادارے میں کچھ عرصے کے لیے رضاکارانہ کام کیا اور بچوں کو اردو پڑهائی. .. اس دوران ویمن ونگ کی روح ورواں نفیس فاطمہ افتخار نے میرے تدریس کے شوق کو اور صحت کو مد نظر رکهتے ہوئے مکمل اختیار دیا کہ جب چاہوں آؤں اور اردو کمپیوٹر یا اردو پڑها دیا کروں
مجهے وہ مہربان دن ہمیشہ یاد رہیں گے…
ہماری پہلی اردو کانفرنس میں بهی ادارے کا تعاون اور مہمانوں کی پذیرائی میں وہ سب برابر کے شریک تهے.
اس ادارے نے یہاں عورتوں کو آگہی دینے میں جو کردار ادا کیاہے وہ لکھنا مجھ پہ قرض ہے …
بہر حال امام صاحب نے بہت نرمی سے کہا بیٹا ایسے نہیں کہتےحق مہر سنت ہے”
جی سنت تو ہے لیکن مسلمانوں نے اسےجھگڑا بنا لیا ہے”
وہ مُصر رہی
ہزار میں نےاسے امام صاحب کی نظر بچا کر آنکھیں دکھانے کی کوشش کی، گهور کر دیکها اور چپ رہنے کا اشارہ کیا. ..اس نے میری طرف دیکها ہی نہیں…
"
لیکن بیٹا آپ حق مہر طلب نہیں کر رہی … یہ مسنون ہےاور شریعت کے مطابق جو کم سے کم حق مہر کی جو رقم ہے وہ تو آپ کو لینا ہی پڑے گا” وہ پھر تحمل سے بولے..
جی امام صاحب یہ بھی مذکور ہے کہ جو اپنی مرضی سے چھوڑنا چاہے اس پر کوئی اعتراض نہیں‘‘ دلہن صاحبہ بھی اسی دھیمے ہجے میں بولی
"
پُتر توں ای واری گھر چل، پھر میں تمہارا سارا فقہ اور شریعت نکالوں گی”،
میں نے دل ہی دل میں جل کر سوچا
ہم چاروں پردے کہ قریب کھڑے آہستہ آواز میں بات کر رہے تھے مُٹھی بھر مہمانوں کی نگاہیں ہمارے اوپر تھیں
"
آپ ایسا کیجئے کہ ہم نے جو کم سے کم حق مہر مقرر کر رکھا ہے وہ تو فی الحال لیں پھر بعد میں جو چاہیں کریں امام صاحب نے مسکرا کر اس کے سر پر ہاتھ رکھا
’’جی بہتر….‘‘ سفید لباس میں اس کے معصوم چہرے پر ایک مکمل اطمنان کی کیفیت تهی .
” جیون جوگی” میں نے سکون کا سانس لیا۔
نکاح کی کاروائی شروع ہوئی…مائک پر امام صاحب کی نرم اور پر سکون آواز ابهری…
ہماری بے حد محترم بہن صدف مرزا کی بیٹی عالیہ حسین کے نکاح کا ب برکت موقع ہے ۔ ہم دلی دعاؤں کے ساتھ اور اللہ کے با برکٹ نام کے ساتھ اس کا آغاز کرتے ہیں۔
’’پیاری بیٹی آپ پر اس نکاح کئ لیے کوئی جبر کوئی دباؤ تو نہیں
’’ جی نہیں ‘‘ ایک واضح جواب کی صورت میں اس نے کہا
آپ کی کوئی شرط…. آپ کوئی مطالبہ کرنا چاہیں‘‘ مائک پر دوبارہ وہی بات دُہرائی گئی۔
’’جی نہیں‘‘ پہلے سے بهی ذیادہ مضبوط آواز آئی
پیاری بیٹی میں پھر دہراتا ہوں کہ اس نکاح میں آپ کی رضا آپ کی رغبت شامل ہے، …آپ پر کسی قسم کادباؤ نہیں ….
کوئی مجبوری نہیں …کسی بھی قسم کسی بھی طرف سے آپ کا کوئی مطالبہ ہو تو آپ کو پورا حق حاصل ہے‘‘
’’جی نہیں‘‘ عالیہ نے بالکل واضح آواز میں کہا،
سفید سادہ سی میکسی میں میرے جہیز کا سیٹ پہنے اس کے چہرے پر بےپناہ سکون تھا
پیاری بیٹی… آپ کوئی مطالبہ کوئی شرط رکهنا چاہیں گی ؟
’’جی نہیں..‘‘
"نکاح کے کاغذات پر دستخظ ہمارے والد کے ہوں گے۔”
میرے بیٹے نے امام صاحب کے سامنے قلم اور نکاح کے کاغذات رکھے۔
ایک لمحے کو تو امام صاحب بھی سکتے میں آ گئے۔
کاغذات پر پہلے بچوں کے ماموں حماد الرحمان مرزا اور ستار انکل کے نام دئیے گئے تھے ۔ لیکن میرے بچوں کی سعادت مندی کے سبب آخری وقت میں میری خواہش کا بھرم رکھ لیا گیا۔
یہ خواہش ان تمام سماجی اور معاشرتی گھٹیا اور منتقم حربوں کو ختم کرنے کے لیے تھی جہاں آپ اولاد کو ایک اچھا بیٹا بناتے ہیں، اچھا انسان بننے کی تربیت نہیں دیتے.
ابا جی کے حکم کے مطابق بچوں کی تربیت میں یہ بات شامل تھی کہ ہم صرف اپنے اعمال کے ذمہ دار ہیں کوئی دوسرا اپنے ضمیر کی عدالت میں کیسے اپنا مقدمہ لڑتا ہے وہ ہماری سر دردی نہیں۔
مبارک سلامت نکاح ہو گیا
گلے میں اٹکے کسی بڑے سے گولے اور آنکهوں میں چبھتی گرم ریت کے باوجود میں نے اطمنان کا سانس لیا….
میرے بیٹے نے میری دائیں طرف آ کر میرا ہاتھ پکڑ لیا…
’’ہی ہی… امی آپ ساس بن گئی ہیں….‘‘ اس نے دانت نکوسے…
ہمارے داماد بیٹےمسکراتے ہوئے میرے پاس آئے، اور میری بائیں جانب کهڑے ہو گئے…
’’مجھے تو لگتا تھا آج امام صاحب کچھ نہ کچھ کروا کہ چھوڑیں گے اتنی تفتیش… بار بار شرائط اور بار بار مطالبے‘‘
داماد
مبین بیٹے نے میرے کاندھوں پر اپنا ہاتھ پھیلا دیا
فکر نہ کرو تم نے بہت اچھا ہوم ورک کیاتھا
مہمانوں میں سے کسی کی آواز آئی
مبارک سلامت اور مسرتوں کی برسات میں مہمانوں نے کهانا کهایا اور نکاح کی رسم کی سادگی اور ندرت کو سراہا…
بلا وجہ کی رسومات اور دنیا داری کے دکهاوے کی خاطر اسراف اور دهوم دهام سے اجتناب کی داد دی…
یہی ہمارا مقصد تها کہ تبدیلی کا عمل اپنے گهر سےشروع کیا جائے…
البتہ ایک اور جدت میں نے یہ کی کہ مٹھائی کی بجائے سرپرائز کے طور پر کیک بنوا لیا تھا جس پر بچوں کے نام تحریر تھے ۔ شاید مسجد میں بھی یہ پہلا موقعہ تھا کہ نوجوان بچوں نے اسے سماجی رسومات کے لیے اتنی خوشی سے استعمال کیا۔
رات گئے تک رونق رہی۔ بچے ہنستے مسکراتے کیک اور چائے سے لطف اندوز ہوئے۔
معدودے چند مہمانوں میں عالیہ کے ڈینش دوست بھی شامل تھے ۔ ڈینش بچیوں نے مسجد اور نکاح کی رسم کے احترام میں نہایت اہتمام سے سر پر سکارف لے رکھے تھے۔ کیک دیکھ کر بہت خوش ہوئیں ۔
ساسو ماں جی، ذرا اپنے داماد کو کیک کھلائیں….
عالیہ نے پہلے اپنی امی جان اور ماموں کو کیک پیش کیا۔ پھر دونوں میری طرف آئے
اچھا، میں نے جلدی سے چمچ تھاما، پھر کیک سے سٹرا بری سمیت چھوٹا سا ٹکڑا کاٹا،
مبین بیٹے نے بڑے اشتیاق سے منہ میٹھا کرنے کے لیے منہ کھولا۔۔۔۔۔
میں نے بے حد آرام سے ہاتھ واپس موڑا اور کیک خود کھا لیا۔
بچوں نے شرارت اور مسرت کا نعرہ لگایا
امی جی، یہ کیا بات ہوئی،” دلہن صاحبہ نے فورا احتجاج کیا
یہ آپ کی اس ساری بحث کا بدلہ لیا ہے میں نے۔۔۔ زیادہ دانشمند نسل اٹھ کھڑی ہوئی ہے اب”..
بشری جی ہمیشہ ہنستے ہوئے کہتیں…
آپ تینوں تو اوپر تلے کے بہن بھائی لگتے ہیں "
نکاح کےبعد پاکستان جاتے ہوئے اس نے ایک لفافے میں پیسے ڈال کر مجھے دیے
.. امی ان میں سے فلاں کو آپ نے ایک سلائی مشین لیکر دینی ہے فلاں کو ……فلاں کو….
میں نے اس کی فلاں اور فلاں اور ہدایات کی طرف توجہ دیئے بغیر پوچھا
یہ کیا ہے”؟
پیسے ہیں….
وہ آرام سے بولی
کونسے پیسے….
لفافے کو ہاتھ لگائے بغیر میں نے پوچھا
یہ حق مہر کے پیسے ہیں امی میں نے سوچا ان کو ایسی جگہ خرچ کیا جائے جس کا اثر دیر تک رہے
میں اس کا چہرہ دیکھنے لگی
"
امی آپ کو یاد ہے نانا ابو کہتے تهے کہ عورت جب مضبوط ہو گی تو تبدیلی آئے گی اور عورت کو کپڑے زیور اور آرائش کی تکون میں بند کرنا اس کی صلاحیتوں کو برباد کرنا ہے
.
مجهے ایسی شادی نہیں کرنی جس کا مقصد صرف کپڑے زیور اور ایک بڑی دعوت کے نام پر فضول خرچی اور ریا کاری ہو
اللہ نے ہمیں اس لیے پیدا نہیں کیا کہ گنتی کے چند سال ہم لوگوں کی مرضی اور دنیا کی ستائش کے لیے جئیں”
میں کتنی دیر حیران اس کی شکل دیکهتی رہی. جی چاہا کہیں سے کسی طرح امی ابا جی مل جائیں اور میں ان کے پاؤں دھو کر احسانات کا شکریہ ادا کر سکوں.
چند ہفتے کے قیام میں کب کیا کیا سیکهتی رہی ہو…
اس کو عادت تهی شام کو ان کے بستر پر بیٹھ جاتی… اور رات گئے پتا نہیں کیا کیا کہانیاں سنتی رہتی.
"
نانا ابو آپ کے زمانے میں شادیاں کیسے ہوتی تھیں
نانی اماں آپ نے اپنی شادی پر کیا پہنا تها
آپ کو کس نے تیار کیا تها…
آپ کی رخصتی ڈولی میں ہوئی تهی ؟؟
میں گهر آئی تو مجهے ہنس ہنس کر بتانے لگی آج نانو شرما رہی تهیں میرے سوالوں پر
پهر مجهے ڈانٹ کر بهگا دیا
میرے تایا زاد بهائی آئے
قسمے ایہہ تیری کڑی لگدی ای نہیں. …
اتنی نفیس اتنی مہذب بچی ہے … تم تو نری ٹارزن تهیں..
پھر آسمان کی طرف دیکھ کر بولے، واہ میرے مولا، تیرے ربگ…
"
میری آنکھوں کے سامنے وہ دن پھر گئے. جب وہ سال بھر کی تھی اور "” نان بو نان بو "” کر کے اُن کے گلے سے لپٹ جاتی تھی. میں اپنی کتابیں لیے نوٹس بناتی رہتی اور وہ نانی نانا کی آغوش سے کندھوں تک سواری کرتی
جب بڑی ہوئی تو ابا جی سے اس کی قربت مزید بڑھ گئی.
میں جب پاکستان جاتی وہ اُن کے بستر میں گھس کے بیٹھ جاتی…
ہزار میں کہتی ہمارے ساتھ بازار چلو..
. باہر چلو وہ وہاں کمرے میں چھپی نہ جانے اُن سےکیا باتیں کئے جاتی
واپسی کا سارا سفر جہاز میں کھڑکی کی طرف منہ کیئے بیٹھی رہتی، اداسی، اب پھر پورا سال انتظار کرنا پڑے گا "
آج میرا جی چاہا کہ میں اُڑ کر جاؤں اور اس سادہ سے کمرے کہ اُس گوشئہِ جنت میں زمیں پرسجدے کروں جہاں ابا جی کاسادہ سا وجود رحمت کے سائے کی مانندمیرے پورے خاندان پر ابر بن کر چھایا ہو
عالیہ کی شادی کے بعد ایک بہت دلچسپ بات ہوئی ۔ جن دوستوں کی بیٹیوں کی شادی ہونے لگتی وہ مجھے پوچھتے بھئی آپ تو سینئر ہیں اور ماشاءاللہ آپ دونوں سمدھنوں نے مثال قائم کر دی ہے
اتنی خوبصورتی سے رشتہ نبھایا ہے اور جس انداز میں آپ ایک دوسرے کا تذکرہ کرتی ہیں رشک آتا ہے
بہت بہت شکریہ۔ میں نے ذرا محتاط انداز میں جواب دیا
کیونکہ زیادہ تعریف و توصیف کرتی زبانوں پر مجھے یقین نہ کرنا سکھایا گیا تھا
"
اچھا میں نے آپ سے پوچھنا تھا کہ آپ نے بیٹی کے نکاح پر کیا لکھت پڑھت کی؟”
جی؟؟ ایک دم مجھے تو اس اصطلاح کی سمجھ ہی نہیں آئی
میرا مطلب ہے کہ آپ نے حق مہر کتنا لکھوایا؟
ہمارے خاندان میں حق مہر لکھوانے کا رواج نہیں ہے”
اچھا۔۔۔۔ وہ تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئیں
تو پھر ماہانہ خرچ وغیرہ تو باندھا ہی ہو گا؟
جی نہیں ۔۔۔ ہمارے گھروں میں یہ شرائط وغیرہ نہیں ہوتیں
اچھا۔۔۔۔ وہ بے یقینی سے مجھے دیکھنے لگیں
تو زیور کتنا لکھایاآپ نے؟
زیور؟
میں آپ کو ایک بات بتاؤں؟
جی جی ۔۔ میں وہی تو پوچھنے کو حاضر ہوئی ہوں۔ میری بچی کا معاملہ ہے آپ دعا بھی کیجیے اور بتائیے بھی کہ کیا شرائط رکھوں "
بات یہ ہے کہ
جب میری شادی ہوئی تو سسرال والوں نے میری چوڑی کا ناپ مانگا۔۔۔۔
آپ سوچ سکتی ہیں میرے والد صاحب نے کیا جواب دیا؟
نہیں
انھوں نے کہا کہ چوڑیوں کی کیا ضرورت ہے۔ اس کی والدہ نے کنگن بنوا لیے ہیں۔ وہی بہت ہے باقی سب خرافات ہے۔ آپ جائیے۔ چوڑیوں کی ضرورت نہیں.
دونوں بچے پڑھنے والے ہیں، بس پڑھنے کی آسانی ہونی چاہیے "
اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔ اب وہ واقعی مرجھا سی گئیں
تو آپ نے بھی عالیہ کا زیور نہیں لیا”؟
بھئی جن کی بہو ہے وہ جانیں اور ان کی بیٹی جانے
میرا کیا دخل بیچ میں….
یعنی جو غلطی آپ کے والد صاحب نے کی وہی آپ نے دہرا دی” انہوں نے اپنی طرف سے بذلہ سنجی کا مظاہرہ کیا
اب تو میں نےادب آداب بالائے طاق رکھ دیا
بی بی ، آپ مجھ سے مشورہ لینے آئی ہیں یا مجھے میری اور میرے اجداد کی اغلاط کی نشاندہی کرنے آئی ہیں
میرے والد صاحب نے کیا مناسب سمجھا یہ آپ کا مسئلہ نہیں ہے،
میں نے اپنی بیٹی کے لیے کیا بہتر سمجھا آپ وہ جاننا چاہتی ہیں سو سن لیا اب آپ تشریف لے جائیے
جب آپ کسی کے ہاتھ میں اپنی بیٹی کا ہاتھ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں تو اپنی روح کا سب سے شاداب حصہ عطا کرتے ہیں
ابا جی کہا کرتے تھے جو کسی کو بیٹی دیتا ہے وہ صرف اس کے بیٹے پر نہیں اس کی نسلوں پر احسان کرتا ہے۔ ایک عورت جو اپنی ذات بھلا کر اس کی اولاد اور نسل پالتی ہے۔
تب میں نے رک کر سوچا تو معلوم ہوا کہ واقعی ہمارے پورے خاندان میں جو بہوئیں آئیں ابا جی نے اور تایا جان نے کبھی کسی کی تعلیم کا راستہ نہیں روکا، کبھی کسی کو ملازمت کرنے سے پابندی نہیں لگائی بلکہ بہت فخر سے بتاتے کہ ہماری بہوئیں اعلی تعلیم یافتہ ہیں
پتا نہیں یہ شادی پر تاجرانہ انداز میں لین دین جہیز اور حق مہر کے لمبے چوڑے مسائل کس نے پیدا کر دئیے جس کام کو اللہ نے سہل کیا اسے مشکل ترین کر دیا گیا ۔ ان عورتوں کو اللہ ہدایت دے ان کی رسموں اور روائتوں نے بھی کام بگاڑا ہے
جس نے اپنی حیثیت کے مطابق جو حق مہر دیاہو، تحائف دینے ہوں اس کے دکھاوےکی کیا ضرورت ہے
شرائط نامے میں ماہانہ چند ہزار روپے میں آپ بیٹی کی کیا سیکورٹی خرید رہے ہیں
لاکھوں لکھوا کر آپ کس کے قدم میں زنجیر ڈال کر کھونٹا باندھنے کی کوشش کر ر ہے ہیں
جسے کچھ نہیں دینا وہ مکڑی کے جالے جیسے شرائط نامے میں الٹا نہیں لٹکے گا
انسانی رشتوں کے اصول وہی رہیں گے جو دنیا پر پہلے انسان کا دل دھڑکنے کے ساتھ بنے
ان ہی اصولوں کے مطابق رشتے قائم کریں اب یہ مرد پر ہے کہ وہ اس بندھن کو کیسے مضبوط کرتا ہے۔ اقتصادی طور پر اس کی ذمہ داری ہے۔ جب مردوں کو عورت کا قوام کہا گیا تو ساتھ ہی شرح کی گئی کہ وہ اپنے مال میں سے عورت پر خرچ کرتا ہے”
ابا جی کو ہمیشہ اس معاملے میں طیش آ جاتا۔ جذباتی ہو جاتے اور ان کا بس نہ چلتا کہ لڑکے والوں کو انسانیت کے انجکشن لگا دیں
جو آپ کو پال پوس کر، پڑھا لکھا کر اپنی بیٹی دیتا ہے اس کے جتنے بھی ناز اٹھائے جائیں کم ہیں۔ اپنی استطاعت کے مطابق اس کی رہائش اور سہولتیں بہم پہنچائی جائیں
ذمہ داری مرد کی ہے کیا اسے نہیں پتا کہ ایک نئی زندگی میں وہ اللہ اور رسول کو گواہ بنا کر کسی کو شامل کر رہا ہے۔ اگر اسے اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں تو پھر کوئی کنٹریکٹ اسے مجبور نہیں کر سکتا
خوئے بد را بہانہ ہا بسیار
میں نے بھی اپنی بیٹی کے پلو سے وہی ربع صدی پہلے کا سبق باندھا جو میری ماں نے میرے آنچل سے گرہ لگائی تھی ۔ خدمت ، خلوص اور خاموشی سے ایک نئے خاندان میں ایک نئی زندگی کا آغاز ایک محبت کے پیغامبر کی صورت میں کوئی زیور، ہیرا موتی
انسانی رشتوں مین محبت کی دولت سے بڑھ کر نہیں اگر کسی کا دل بالکل سیاہ نہیں تو وہ اس پیغام کو آنکهوں اور لبوں سے لگا کر قبول کرے گا
انسانی رشتوں ک تقاضے اور کیفیات کبھی نہیں بدلتیں
جسے جذبات کی نفیس ریشم کی ڈوری نہ باندھ سکی، آپ اسے آبِ زرین سے لکھ لیجیے دنیا کی کسی چھلنی سے گزار یجیے، اسے کوئی معاہدہ، کوئی شرائط نامہ کوئی رجسٹری نہیں سدھار سکتی
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر

#لکھاریاں,
#قلمکاریاں,
#فنکاریاں,
#اردو_ادب,
#اردو_شاعری,
#اردو_کی_بہترین_شاعری
#غمگین_شاعری
#قلمکار
#تعلیم_تربیت
#اردو_کی_محبت
اُردو ادب ، اردو شاعری ، اردو نثر پر بہترین ویڈیوز حاصل کرنے کےلئے ہمارا چینل سبسکرائب کریں
قلمکار سٹوڈیو ۔ اردو ادب میں انفرادیت کا معیار

https://www.youtube.com/channel/UCvLqVBigQH-opDYMn5Nw_wg

https://www.facebook.com/QalmkarStudio
https://www.pinterest.com/kalmkar786/qalmkar-studio
https://www.facebook.com/LikhariOnline
https://www.instagram.com/qalmkarstudio

Facebook Comments

POST A COMMENT.