شادی کی اکتیسویں سالگرہ

دسمبر 1983 میں ہاٶس جاب ختم ہوا تو فوج میں کمیشن مل گیا اور ایبٹ آباد سے ابتداٸی فوجی ٹریننگ کے بعد نومبر 1984 میں چترال اسکاٶٹس میں پوسٹنگ ہونے پر دروش قلعے میں جا ڈیرے ڈالے ۔ کمانڈنٹ چترال اسکاٶٹس کرنل مراد خان نیر نے لوگوں کی خدمت کی ایسی لت لگا دی کہ پہاڑوں کے بیچوں بیچ گاٶں گاٶں جاکر بیماروں کا علاج کرتے کرتے 5 سال پلک جھپکتے گزر گٸے ۔ 1989 کے اواخر میں میاں جی نے وارننگ دے دی کہ نوکری بہت کرلی ۔ اب ایک سال کے اندر تمہاری شادی ہوگی ۔ کہیں چاہتے ہو تو بتا دو ورنہ ہم بتا دیں گے ۔
میں نے بی بی جی سے کہا کہ ایک ڈاکٹر لڑکی ہے اگر میاں جی زات پات کے پھَڈے نہ ڈالیں تو اس سے میری شادی کروا دیں ۔ بی بی جی نے خوشی سے کہا اگر لڑکی تمہیں پسند ہے تو چلو اسکی ماں سے میری بات کرواٶ ۔ میں نے آہستہ سے کہا کہ اسکی ماں تو جب وہ تین سال کی تھی فوت ہوگٸی ۔ بی بی جی بہت آبدیدہ ہوٸیں کہنے لگیں پُتر پھِر اسکے والد سے تو تمہارے میاں جی ہی بات کرینگے ۔ میں نے پھر کہا اس لڑکی کے والد کو فوت ہوٸے بھی 8 سال ہو چکے ہیں وہ اپنے بڑے بھاٸی کے ساتھ رہتی ہے ۔ بی بی جی نے میرا مُونہہ چُوما اور بھراٸی ہوٸی آواز میں کہنے لگیں پُتر دل چھوٹا نہ کر تیرے میاں جی کو منانا میرا کام ہے ۔ پھر میاں جی نے سنا تو پہلا سوال تھا کہ کیا آراٸیوں کی بیٹیاں مُک گٸی ہیں جو کسی دوسری برادری میں لڑکی ڈھونڈھ رہے ہو ۔ میں تو چُپ ہی رہا ۔ نہ جانے بہن بھاٸیوں اور بی بی جی نے کیسے میاں جی کو اپنی زات برادری سے باہر میری شادی پر راضی کر لیا ۔
اللہ کا کرم ہوا کہ سب کچھ چٹ پٹ ہی طے ہوگیا اور 31 جنوری 1990 کو گریجوایشن کے 7 سال بعد میری شادی ہوگٸی ۔ الحمد لله آج میری 31st Wedding Anniversary ہے اور شادی کے پہلے دن ناشتہ پر بی بی جی کی کہی باتیں یاد آرہی ہیں ۔ سُن پُتر تیری ووہٹی کا ماں باپ نہیں ہے ۔ کسی لڑکی کا میکا تو ماں باپ سے ہی بنتا ہے ۔ تو کان کھول کے سُن لے ۔ آج سے میں تیری بی بی کم اور تیری ووہٹی کی ماں زیادہ ہوں اگر اسے کبھی تکلیف پہنچاٸی تو سمجھ لے تُو میرا دل دکھاٸے گا اور اگر تُو چاہتا ہے کہ آنے والے کل میں تیری بیٹی بھی خوشیوں میں زندگی گزارے تو اُس جَنتی ماں باپ کی اِس بیٹی کو ہمیشہ سُکھی اور خوش رکھنا ۔ بی بی جی جب تک زندہ رہیں میری بیوی کی ماں بنی رہیں ۔ ہمارے گھر میں کہیں ساس بہو کا رشتہ نظر ہی نہ آیا ۔ میں تو فوج میں تھا اور بیوی بچے پیچھے گھر میں ۔ اِسکا فاٸدہ یہ ہوا کہ بی بی جی آہستہ آہستہ اپنی توکل تحمل شُکر اور دُور اندیشی جیسی خُوبیاں میری بیوی میں منتقل کرتی رہیں اور طلعت نے بھی میاں جی اور بی بی جی کی بیٹی بن کر ہر حق ادا کیا ۔ اس نے بیوی بیٹی بہو بھابھی اور پھر ماں کے رشتوں کو اتنی خوبصورتی سے نبھایا کہ میرا پورا کُنبہ اسکا گرویدہ ہو گیا اور اب بھی ہے ۔
آج میں خود کو دنیا کا خوش نصیب انسان سمجھتا ہوں کہ وہ میری شریک حیات ہے ۔ وہ میرے ساتھ عام سے مکان کی رہاٸشی رہی ۔ میرے ساتھ بنچ پر بیٹھ کر ایک پلیٹ میں بریانی کھاتی رہی ۔ میرے ساتھ بسوں اور رکشوں میں سفر کرتی رہی کہ پیسے بچے تو کسی بہن بھاٸی کے کام آٸیں گے ۔ میری تنخواہ میں اپنی تنخواہ ملاکر میرے بھاٸی کے یتیم بچوں کی کفالت کرتی رہی ۔ حالات کیسے بھی ہوٸے وہ ہمیشہ خوش رہی ۔ وہ میرے قصُور اور زیادتیاں بی بی جی کی محبت کے صدقے معاف کرتی رہی اور اب بھی کرتی ہے ۔ لوگ مجھے سخی ہمدرد رشتے ناطے نبھانے والے اور کُنبہ پال شخص کے حوالے سے جانتے ہیں حالانکہ یہ سب کچھ میں نے اپنی بیوی کی قربانیوں سے سیکھا ہے ۔ اس نے اپنی شادی شدہ زندگی کے یہ 30 سال ہر طرف محبتیں بانٹنے میں گزار دیے اور کبھی اُف نہ کیا ۔
مانتا ہوں اس کے ساتھ زندگی کی خوشگوار یادیں اور خوشیاں ہر طرف بکھری پڑی ہیں مگر اب عمر کی ساتویں دہاٸی میں آکر میں ڈرنے لگا ہوں کہ اگر کبھی ہم میں سے ایک نہ رہا اور دوسرے کو اکیلے جینا پڑگیا تو کتنا جی پاٸیگا ۔
بریگیڈئیر بشیر آرائیں

 

#لکھاریاں,
#قلمکاریاں,
#فنکاریاں,
#اردو_ادب,
#اردو_شاعری,
#اردو_کی_بہترین_شاعری
#غمگین_شاعری
#قلمکار

اُردو ادب ، اردو شاعری ، اردو نثر پر بہترین ویڈیوز حاصل کرنے کےلئے ہمارا چینل سبسکرائب کریں
قلمکار سٹوڈیو ۔ اردو ادب میں انفرادیت کا معیار

https://www.youtube.com/channel/UCvLqVBigQH-opDYMn5Nw_wg

https://www.facebook.com/QalmkarStudioا
https://www.pinterest.com/kalmkar786/qalmkar-studio
https://www.facebook.com/LikhariOnline
https://www.instagram.com/qalmkarstudio

 

 

 

 

Facebook Comments

POST A COMMENT.