تحریر: صغری یامین ۔ لاہور
وہ کہتے ہیں نا کہ اگر طلب سچی ہو تو انسان اپنی منزل کو پا لیتا ہے ،یہ ان دنوں کی بات ہے جب خدیجہ ہر وقت اپنی ماں کے سامنے رو رو کر التجا کرتی رہتی تھی پڑھنے کے لئے اتنی سی چھوٹی بچی کا یہ شوق دیکھ کر ،اس کی ماں نے اس کو پڑھنے کے لئے کسی کے پاس بھیجنا شروع کر دیا ،گاؤں میں توکوئی پڑھی لکھی عورت نہیں تھی،شہر سے کسی کے گھر ایک پڑھی لکھی دلہن آئی تھی ،تو خدیجہ کی والدہ نے اس کو سارا معاملہ سمجھا دیا ،اور خدیجہ کے پڑھنے لکھنے کے شوق کے بارے میں بھی بات کی ،
اس دلہن نے بڑی خوشی سے خدیجہ کو پڑھنے کے لئے بلا لیا ،خدیجہ بہت ذہین تھی اس نے پانچویں کلاس تک پڑھ لیا اور اس کی جو ٹیچر تھی اس نے اس کو چوری چھپے بورڈ کے پیپر بھی دلوا دیے۔ خدیجہ نے امتحان اچھے نمبروں کے ساتھ پاس کر لیا ،
۔وہ اب مزید اور پڑھنا چاہتی تھی اور پڑھائی کیلئے اسے گاؤں سے باہر جانا پڑنا تھا ،اب یہ بات چھپی نہیں رہ سکتی تھی ،
اس کو پڑھنے ، لکھنے، کا شوق جنون کی حد تک تھا پڑھائی کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار رہتی تھی ،خدیجہ نے ایک ایسے ماحول میں آنکھ کھولی تھی ،۔۔۔۔۔۔جہاں بچیوں کو پڑھانا عیب سمجھا جاتا تھا ،جو والدین غلطی سے بھی اپنے بچیوں کو پڑھانے کی بات کرتے تو خاندان والے ان کو طرح طرح کی باتیں سناتے ہوۓ یہ دھمکی دیتےاگر بچیوں کو پڑھنے کے لئے بھیجا تو خاندان سے الگ کر دیا جائے گا،والدین بچیوں کو بڑھانے والی خواہش کو دل میں دبا لیتے ،
خدیجہ :اپنے خاندان میں سب سے الگ ہی بچی ہے اللہ تعالی نے اس کو قائدانہ صلاحیتوں سے نوازاہ تھا یہ ،با ہمت حوصلہ مند ،نڈر ہے ،خدیجہ کے دادا ابو بہت زیادہ سخت ہیں بچیوں کی پڑھائی کے معاملے میں ،کوئی بھی ان کے سامنے آونچی آواز سے بات نہیں کر سکتا ،پورے خاندان میں ان کی بات مانی جاتی ہے ،کوئی بھی ان کے سامنے چون و چرا ں نہیں کر سکتا ،مگر
خدیجہ کئی دنوں سے دل ہی دل میں دادا ابو سے پڑھائی کے سلسلہ میں بات کرنے کے لیے منصوبہ تیار کر رہی تھی ،
خدیجہ :اپنے دادا ابو کے پاس جاتی ہےجو کمرے میں بیٹھے ہیں ،
دادا ابو :جی جی بیٹا کیا بات ہے ؟
وہ وہ داد ابو میں آپ سے بات کرنا چاہتی ہوں ،
بولو بیٹا ڈر کیوں رہی ہو ؟
کیا بات کرنا چاہتی ہوں ؟
داد ابو میں پڑھنا چاہتی ہوں ،
جب اس کے دادا ابو نے یہ بات سنی گرج دار آواز میں بولے ،تیرا دماغ خراب ہو گیا ہے خاندان والوں کے سامنے ہمیں ذلیل کرواو گی،
کیا تیری ماں نے تمہیں کچھ نہیں بتایا ہمارے خاندان کی بچیوں کے لیے پڑھنے لکھنے کے بارے میں سوچنا بھی گناہ تصور کیا جاتا ہے
اور تم میرے سامنے کھڑی ہو کر بےباکی سے پڑھنے کی بات کر رہی ہو ،آج تو !تو نے یہ بات کر دی میرے سامنے ،آئندہ میں تمہاری زبان سے پڑھائی کے بارے میں کسی قسم کی بات نہ سنوں،چلو یہاں سے دفع ہو جاؤ اور اپنی ماں کو میرے پاس بھیجو ،میں اس کے کان کھولتا ہوں ،
خدیجہ زار و قطار رو رہی تھی اس کا رونا سسکیوں میں بدل چکا تھا ،وہ اپنی ماں کے گلے لگ کے خوب روئی ،کیونکہ اس کو پڑھنے لکھنے کا شوق جنون کی حد تک ہے ،وہ اپنے اس خواب کو ہر صورت میں پورا کرنا چاہتی ہے،
خدیجہ :اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے اپنی ماں کو کہتی ہے ،داد ابو آپ کو بلا رہے ہیں ،یہ بات سنتے ہی اس کی ماں کا رنگ ڈر کے مارے زرد ہو جاتا ہے ، کیوں کہ خدیجہ کے دادا بہت سخت گیر آدمی ہیں،
خدیجہ کی والدہ :
بیٹا میں نے آپ سے کہا تھا اپنے اس شوق کو اپنے دل میں ہی دفن کر دو ہمارے لیے مصیبت کھڑی مت کرو ،مگر تم کہاں سنتی ہوں میری بات اپنی من مانی کرتی ہو ،اب معلوم نہیں تمہارے دادا ابو ہمارے ساتھ کیا کریں گے ،
خدیجہ کے بہن بھائی بھی سہمے ہوئے بیٹھے تھے ،اور اس کو سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے ،کہ وہ اپنی اس خواہش کو اپنے دل میں دفن کر لے ،مگر خدیجہ کہاں ماننے والی تھی ،وہ اپنے ارادوں کو لے کر پر عزم تھی ،وہ کسی صورت میں بھی اپنے مقصد سے پیچھے ہٹنے والے نہیں تھی ،۔۔۔۔ خدیجہ کہاں ہو تم اس کے ابو کی زور دار آواز آئی آج تم نے یہ کیا کارنامہ انجام دیا جلدی سے میری بات سنو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خدیجہ : بوجھل قدموں کے ساتھ ڈرتے ڈرتے اس کمرے کی طرف جاتی ہے ،جہاں اس کے بابا جان بیٹھے ہیں ،وہ سر جھکا کے ان کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے ،اک لمبا سانس لے کر
ہمت جمع کرکے پوچھتی ہے ،
خدیجہ :بابا جان آپ نے مجھے بلایا؟
وہ کسی کام میں مصروف ہوتے ہیں ،وہ اپنا سر اٹھاتے ہوئے بولتے ہیں ،
بابا جان :بیٹا میں نے پہلے بھی آپکو سمجھایا تھا ،اپنی ضدچھوڑدو ،یہاں تمہاری کو ئی سننے والا نہیں ،ان کو تعلیم کی قدر کا علم نہیں ،پتھروں سے سر ٹکرا کے تم خود کو زخمی کر لو گی ،اور میں نہیں چاہتا میری پیاری بیٹی کوکوئی دکھ تکلیف آئے،
خدیجہ :بابا جان تعلیم سے دور رہ کر آپ کو کیا لگتا ہے کہ میں خوش رہو ں گی ،جب میرے دماغ میں یہ خیال آتا ہے ،میری روح تک کانپ جاتی ہے،مجھے ایسا لگتا ہے ،جیسے جینے کا مقصد ہی ختم ہو گیا ہے ،تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے کوئی مجھے تکلیف دیتا بھی ہے ،تو مجھے برا نہیں لگتا ،اور مجھے یہ سکون ہوتا ہے اپنے مقصد میں لگی ہوئی ہو ں،
====================
خدیجہ کے بابا :بیٹا میں نے پہلے بھی آپ کو یہ کہا تھا اور اب بھی یہی کہتا ہوں دادا جان سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا ،الٹا ہمیں ڈانٹ پڑے گی اور ہماری پرورش پر سوال اٹھائے جائیں گے ،اور بات بات پر ہمیں ذلیل کیا جائے گا ،بیٹا آپ کو نافرمان کے لقب سے نوازا جائے گا جو میری برداشت سے باہر ہے ،میرے لئے اپنی پیاری بیٹی کے خلاف باتیں سننا کسی دردناک اذیت سے کم نہیں ہوگا ،خدیجہ اپنے بابا کی باتیں سن کر زارو فطار رونے لگ جاتی ہے ،کہ اس نے اپنے پیارے بابا کے لیے مشکلات کھڑی کردی،وہ اپنے بابا کے پاس بیٹھ جاتی ہے ،
خدیجہ :بابا جان
میں کیا کروں میرے بس میں نہیں ، پڑھائی کو چھوڑنا ،آپ صرف میرے لیے دعا کریں اللہ سبحان تعالی آسانی والا معاملہ فرما دے ،
خدیجہ کے بابا جان اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہیں ،ان کی بھی آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں ،وہ اپنے آنسو چھپاتے ہوئے ،اس کو تسلی دیتے ہیں _خدیجہ کے بابا :بیٹا اگر تیرے مقدر میں علم حاصل کرنا ہوا ، تو مجھے اپنے رب سے امید ہے ،تم ضرور علم حاصل کرو گی ،میرا نام روشن کرو گی ،مجھے اپنی پیاری بیٹی پر فخر اور ناز ہے ،جاؤ پیاری بیٹی آرام کرو ،خدیجہ اپنی امی کے پاس آ جاتی ہے، اس کی امی کو معلوم ہے ،اپنے بابا کی لاڈلی ہے اس کی آنکھوں کا تارا ہے ،
خدیجہ کی امی :کیا باتیں ہوئی باپ بیٹی میں ،میں جانتی ہوں ہمیشہ کی طرح تمہارے بابا نے تمہارے ہی سائیڈ لی ہوگی ،وہ تمہیں کیسے غلط کہ سکتے ہیں ،بھگتنی تو ہمیں پڑتی ہیں ،تمہارے دادا جان کی باتیں طعنےو تشنیع ہمیں سننا پڑتے ہیں ،
خدیجہ :میری پیاری امی جان میں آپ سے معافی چاہتی ہوں ،پڑھائی کے معاملے میں آپ ا چھی طرح جانتی ہیں، میں بہت حساس ہوں ،اورخدیجہ کو بات کرتے ہوئےیہ محسوس ہوتا ہے ، کہ اس کی ماں کس کرب سے گزر رہی ہیں ،اس کو خوش کرنے کے لئے کہتی میں آپ کے پاؤں دباؤ دوں آپ سارا دن کام کرتی رہتی ہیں تھک گئی ہو نگی ،خدیجہ کی بڑی بہن ،جس کا نام عائشہ ہے ،
عائشہ :امی کو تنگ مت کرو ،وہ سارا دن کام کرکے تھک جاتی ہیں اور پھر تمہاری پرشانی ، جو حرکتیں تم کرتی ہو ،اللہ دادا ابو سے بات وہ بھی پڑھائی کے معاملہ میں، خدیجہ تمہیں ذرا بھی ڈر نہیں لگتا تھا داد ابو سے ،میری تو ان کو دیکھ کے ڈر کے مارے آواز ہی نہیں نکلتی،اور تم نے تو بڑی دیدہ دلیری سے ان سے بات کرلی،
ویسے ماننا پڑے گا تمہاری بہادری اور جرءت کو ،
خدیجہ :کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے ،جب کچھ حاصل کرنا ہو تو ہمت کرنا پڑتی ہے ،ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنے سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ،
خدیجہ کی امی :اب تم دونوں کی بحث شروع ہو گئی جاؤ سو جاو پہلےہی وقت زیادہ ہو گیا ہے،پھر صبح تم دونوں سے فجر کی نماز کے لیے اٹھا نہیں جاتا ،
وہ دونوں اپنے اپنے بستر کی طرف چلی جاتی ہیں ، اور سو جاتی ہیں ،
خدیجہ کا گھر بہت بڑا ہے ،
دہلان جس کی چھت میں دیار کے چھ شہتیر ہیں ،دہلان کی پچھلی طرف 3 کوٹھڑیاں ہیں ،دہلان کی جو سامنےوالی دیوار ہے ان میں لکڑی کی الماریاں نصب ہیں ،اور دہلان کے باہر سیدھے ہاتھ کی طرف ایک رسوئی ہے ،اور آگے ایک کنال کا صحن ہے جس میں صحن کی دیواروں کے پاس کیاریاں ہیں جن میں رنگ برنگے پھول اور پودے لگے ہوئے ہیں ،گلی کی دیوار کے ساتھ واش روم بنا ہوا ہے ،تاکہ کمروں میں بدبو نہ پھیلے ،
صبح فجر کے وقت اذان کی آواز کے ساتھ خدیجہ اور عائشہ کی کی آنکھ کھلتی ہے ،ان کے
بابا جان نماز کے لیے جانے کی تیاری کر رہے ہیں ،وہ مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں ،وہ دونوں بھی اپنی اپنی نماز کی تیاری شروع کر دیتی ہیں ،ان کی امی چار بجے سو کر اٹھ جاتیں ہیں،اپنے کام کاج میں مصروف ہو جاتی ہیں اور وہ اس وقت ہاتھ والی مدھانی کے ساتھ دودھ بلو رہی ہیں،خدیجہ نماز پڑھ کے اپنی امی کے پاس آکر بیٹھ جاتی ہے ،اورعائشہ دوبارہ سونے کے لئےچلی جاتی ہے ،
خدیجہ :امی جان مجھے بھی تھوڑا سا مکھن دیجئے ،
خدیجہ کی امی :سارا مکھن تو تم کھا جاو گی باقیوں کو کیا دوں گی ہنستے ہوئے اس کو مکھن دے دیتی ہیں ،
اس کو تازہ مکھن بہت پسند ہے اس کے بعد اس کی امی اپنا کام ختم کرکے نماز پڑھنے کے لئے چلی جاتی ہیں ،وہ اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے ،اپنا بیگ سامنے رکھ کے رونا شروع کردیتی ہے ،اس کا عشق کتابوں سے دیدنی ہے ،کتابوں سے باتیں کرنا شروع کر دیتی ہے،اس کو چوم کر سینے سے لگاتی ہے، میرا تمہارے بغیر جینا ناممکن ہے، اتنے میں ،اس کی خالہ جس کا نام نمرہ جو اس کی بہن کی ہم عمر ہے ،
نمرہ: خدیجہ تمہارے لیے خوشخبری ہے ،اگر میں وہ خوشخبری تمہیں سناؤں تو مجھے کیا دوگی ؟پہلے وعدہ کرو اس خوشی میں تم ہم کو کچھ نہ کچھ کھلاو گی ،
،اتنے میں عائشہ بھی شورسےجاگ جاتی ہے ،
عائشہ :خالہ آپ کو تو سکون ہی نہیں ملتا ہمارے بغیر ،پتا نہیں رات کو بھی کس طرح رہتی ہو ,اگر آپ کے بس میں ہو آپ رات کو بھی یہیں رہیں ،جلدی جلدی بتائیں کیا خبریں لے کر آئی ہیں، ماسی مصیبتے!سب ہنسنا شروع کر دیتے ہیں ،
نمرہ :چلو جاؤ میں نے بھی کچھ نہیں بتانا ،
خدیجہ کی امی :کیوں میری پیاری سی بہن کو تنگ کر رہے،وہ تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی ،پھر بھی اس کا مذاق بناتی ہو،خبردار آج کے بعد میری پیاری بہن کو کسی نے کچھ کہا ،اس طرح نمرہ کا غصہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے ،
خدیجہ: خالہ جان! اب جلدی سے بتا بھی دیں ،کیا خوشخبری لے کر آئی ہیں، وہ جو تمہارے دور کے چچا ہیں ،
خدیجہ :کون ؟چچا انعام کیا ہوا ان کو خیر تو ہے ،
نمرہ :پہلے پوری بات تو سن لو درمیان میں ہی ٹوکنا شروع کر دیتی ہوں ،
خدیجہ :چلو اب میں نہیں بولتی آپ جلدی سے بتاو ،
نمرہ :تمہارے چچا انعام کی بیٹی وہ جو اپنے نانا ابو کے پاس رہتی تھی ،
خدیجہ :تو کیا ہوا اس کو ہائے اللہ اس بچاری کو کیا ہوگیا ؟اللہ خیر کرے ،
نمرہ: اب تو پکا میں تمہیں کچھ بھی نہیں بتاؤں گی خدیجہ کی بچی پوری بات سنتی نہیں درمیان میں ہی طوطے کی طرح بولنا شروع کر دیتی ہے ،
خدیجہ :اب وعدہ نہیں بولوں گی آپ پوری بات سنائیں ،
نمرہ:اس نے بارہ جماعت پاس کر لی ہے ،اور اس کے ابواس کو واپس لے آئے ہیں،اس بچاری کا یہاں دل نہیں لگ رہا ،وہ اکیلی بیٹھی رہتی ہے ،اداس رہتی ہے ،
یہ بات سنتے ہیں خدیجہ خوشی سے اچھل پڑتی ہے ،اس کی آنکھیں خوشی سے چمکتی اٹھتی ہیں، اور خالہ نمرہ کو گلے لگا لیتی ہے ،
خدیجہ :میرا مسئلہ حل ہوگیا ،اس کا بھی دل لگ جائے گا ،اور میرا بھی کام بن جائے گا ،میں اس سے پڑھنا شروع کردیتی ہوں اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا ،اور اپنی ٹیچر سے مشورہ کرکے پرائیویٹ امتحان دیے دوں گی، میری دعا قبول ہوگی،میری دعا قبول ہوگی ،
اسی اثنا میں خدیجہ کے دادا ابوکی گرجدار آواز آتی ہے
کیا ؟منصوبہ بندی ہو رہی ہے ،سب ڈر کے مارے اک دوسرے کو تکنے لگتے ہیں ۔۔۔۔۔
خدیجہ کے دادا :
کب سے میں تم لوگوں کی کھسرپھسرسن رہا ہوں ،فضول میں بیٹھے اپنا وقت ضائع کر رہے ہو ،تم لوگوں کو وقت کی قدر و قیمت کا اندازہ ہی نہیں ،وہ لوگ زندگی میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکے ،جنہوں نے وقت کی قدر کو نہ پہچانا ،جاو اپنے اپنے کام میں لگو !
سب لوگ دم بخود ہو کر دادا کی بات سن رہے تھے ،اور دل ہی دل میں شکر ادا کر رہے تھے کے دادا نے ان کی بات نہیں سنی جو آپس میں منصوبہ بندی کر رہے تھے ،ورنہ
آج تو سب کی شامت آنی تھی اگر داداجان کو ذرا بھی بھنک پڑ جاتی،
نمرہ خالہ اچھا بچو! میں چلتی ہوں میاں جی، ڈیرہ سے آنے والے ہونگے،ناشتہ کرنے کے لیے ،
میاں جی خدیجہ کے نانا ابو ہیں، بہت ہی باوقار شخصیت کے مالک ہیں ,بڑوں سے لے کر چھوٹوں تک ،ان کی عزت کرتے ہیں ،خدیجہ کے نانا ابو عقلمند اور کم گو انسان ہیں ،
اس کے بعد سب لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں ،خدیجہ دل ہی دل میں انجم سے ملاقات کرنے کا منصوبہ بنانے لگی،وہ ابھی سوچ ہی رہی تھی، اس کی امی جان اس کو آواز دیتی ہیں خدیجہ بات سنو ،اس کی امی نے دوپہر کا کھانا تیار کر لیا اور کہنے لگی،
خدیجہ کی امی: بیٹا تم اور عائشہ اپنے بابا کے لیے کھیتوں میں کھانا لے جاؤ ،کام کرکے ان کو بھوک لگ جاتی ہے ،کوشش کرکے کھانا جلدی پہنچا دینا راستے میں کھیلنے مت لگ جانا، کل بھی آپ کے بابا مجھے آپ دونوں کی شکایت کر رہے تھے ،کہ کھانا دیر سے پہنچتا ہے، ،بھوک کے مارے برا حال ہو جاتا ہے ،جاؤ جلدی سے دھیان سے جانا ،ادھر ادھر کی باتوں پر کان مت دھرنا کام سے کام رکھنا ،راستےمیں ہر گز کسی سےفضول بات نہیں کرنی ،اگر کوئی عورت بچہ ،یا بوڑھا کسی مصیبت میں پھنس گئے ہوں _ان کی ضرور مدد کرناہر حال میں ،کیوں کہ بیٹا ہم نے اپنے بڑوں سے سنا ہے ،اگر کوئی انسان چاہے کتنی بھی عبادات کرلیجب تک اس کے اخلاق درست نہ ہوں اور دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ اس کے اندر نہ پایا جاتا ہو ،وہ مہمان نواز نہ ہو ،اپنے قریبی رشتہ داروں کا خیال نہ رکھتا ہو ،اور پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتاؤنہ رکھتا ہو،ایسے شخص کی کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی ،میری پیاری بیٹیو! جو باتیں میں آپ کو سمجھاتی ہوں اور بتاتی ہوں ،ان کو کبھی بھی نظر انداز نہ کرنا ،یہی تعلیمات ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو دیں اور سیدھے راستے کی طرف رہنمائی فرما دی،
یہ روز کا معمول تھا خدیجہ کی والدہ جب بھی ان کو باہر کھیتوں میں بھیجتئں تو نصیحتیں ضرور کرتیں ،جو مائیں نیک صالح ہوں ،وہ اسی طرح سے اپنی اولاد کی تربیت کرتی ہیں ،
خدیجہ کی امی :جلدی سے چلی جاؤ پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے ،خدیجہ تم اپنا اور عائشہ کا خیال رکھنا ،
خدیجہ ہاتھ میں روٹیوں والا رومال جس میں اس کی امی نے روٹیاں رکھ کر گرہ لگا دی پکڑ لیتی ہے ،عائشہ کے ہاتھ میں لسی کا ڈول ہوتا ہے ،وہ دونوں کھیتوں کی طرف چل پڑتی ہیں ،ان کےکھیت ان کے گھر سے تین میل کے فاصلے پر ہیں ،دونوں بہنیں آپس میں خوش گپیاں کرتے ہوئے منزل کی طرف رواں دواں ہیں ،جوراستہ کھیتوں کی طرف جاتا ہے وہ بہت ہی خوبصورت ہے،اس کے دونوں اطراف میں خوبصورت پودے لگے ہیں ،ان پودوں میں سے کئی پھلوں کے ہیں اور کچھ پھولوں کے ہیں ،بہار کے موسم میں تو نظارہ دیدنی ہوتا ہے ،سارا راستہ پھولوں کی خوشبو سے معطر ہو جاتا ہے ،ایک طلسماتی ماحول بن جاتا ،سرسبز کھیت دلکش نظارہ پیش کرتے ہیں ،ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کھیتوں میں سبز رنگ کی دلکش چادر پڑی ہو ،جب ہلکی ہلکی سی ہوا جلتی ہے ایسےلگتا ہے جیسے اس چادر کو پکڑ کر کوئی آہستہ آہستہ حرکت دے رہاہو،جب اس دلکش نظارہ کی طرف اچانک نظر اٹھتی ہے آنکھوں کو سکون اور دل کو عجیب سے مسرت ہوتی ہے ،
گاؤں کی زندگی بہت ہی سادہ ہوتی ہے ،لوگ نماز کے بعد صبح سویرے کھیتوں کی طرف کام کے لئے نکل جاتے ہیں ،عورتیں گھروں میں اپنے کام کاج میں مصروف ہو جاتی ہیں ،لڑکیوں کو پڑھانے کا رواج ہی نہیں اس گاؤں میں ،جو لڑکے ہیں وہ اپنےاپنے اسکول کی طرف چلے جاتے ہیں ، کچھ اکا دکا نکمے قسم کے لڑکے رہ جاتے ہیں،جو آوارہ ادھر ادھر گھوم کر وقت ضائع کرتے ہیں،
خدیجہ :آج پھر یہ نکما انسان بیٹھا گھور رہا ہے ،دل تو کرتا ہے اس کو کھری کھری سنا دں،
عائشہ :امی جان نےسمجھایا تھا نا کہ راستہ میں فضول بات نہیں کرنی زبان بند کرو اور چپ چاپ سیدھی ہو کر چلو ،
خالہ رانی کام سے فارغ ہو کر گاؤں کی طرف آرہی ہوتی ہے ،سر پر لکڑیوں کا گٹھا اٹھایا ہوتا ہے ،خالہ رانی کا ڈیرہ اور ان کا ڈیرہ ساتھ ساتھ ہے، ان کے دور پار کے رشتے میں خالہ لگتی ہیں، وہ عائشہ اور خدیجہ کو کہتی ہے، جلدی سے کھانا لے کے چلی جاؤ ،تمھارے باباجان بار بار گاؤں کی طرف منہ اٹھا اٹھا کے دیکھ رہے تھے ،مجھے لگتا ہے ان کو بھوک لگی ہوئی ہے ،وہ دونوں تیزی سے چلنا شروع کر دیتی ہیں اوراب
ڈیرہ تھوڑی دور ہی رہ گیا تھا ،
اور ان کو کھیت نظر آنا شروع ہو گئے تھے ،
:وہ دیکھو عائشہ اباجان کام میں مصروف ہیں، خدیجہ دور سے ہی آوازیں لگانا شروع کردیتی ہےآگئے ہم آگئے ،ان کے پاس جاتے ہی اپنے بابا جان کو کہتی ہے، چلیئے کام چھوڑیے اور کھانا کھا لیجیے جو کام رہ گیا ہے میں کر دیتی ہوں ،
اس کی ابا جان اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتے ہیں اور ان دونوں کو تھوڑے تھوڑے بیر دیتے ہیں ،ان
کے کھیتوں میں بیریاں ہیں اور بہت مزے مزے کے بیر لگتے ہیں ،
خدیجہ کے ابو :آج تو لگ رہا ہےکھانا بہت مزے کا ہے ،تمہاری ماں کے ہاتھ کا پکا ہوا ساگ بہت کمال کا ہوتا ہے ،اور ساتھ میں چاٹی کی لسی اور تازہ مکھن مزہ دوبالا کر دیتے ہیں،
خدیجہ :ابا جان آپ سکون سے کھانا کھائیے اور تھوڑی دیر آرام بھی کر لیجے ،میں اوعائشہ باقی کا گھاس کاٹ دئیں گئے،
خدیجہ کام کاج میں ابا جان کا خوب ہاتھ بٹاتی ہے، اسی لئے اس کے ابا جان کو اس سے بہت زیادہ محبت ہے ،وہ خدیجہ کی بات کو نہیں ٹالتے ،سوائے پڑھائی کے کیونکہ وہ اس معاملہ میں مجبور ہیں،
وہ دونوں اپنے بابا کو کھانا کھلا کر واپس آ جاتی ہیں، گھر آتے ہیں ان کی امی جان ان کو ہاتھ دھونے کا کہتی ہیں، اور ان کوبتاتی ہیں کہ سپارے کا وقت ہو گیا ہے ،آپا کے گھر سپارے کے لیے چلی جاؤ ،جب وہ دونوں سپارہ پڑھ کے گھر واپس آ رہی ہوتی ہیں، ان کی کے گھر کی چھت اور آپا کے گھر کی چھت ساتھ ساتھ ہیں وہ اپنے گھر چھت سے واپس آتی ہیں، آج جب وہ چھت سے واپس آرہیں تھیں، تو خدیجہ کی نظر انجم پر پڑتی ہے، جو ان کی چھت پر مونجی سکھا رہی ہوتی ہے، وہ اس کو دیکھ کر خوشی سے اچھل پڑتی ہے،وہ اس سے ملاقات کامنصوبہ بنا رہی تھی ،خدیجہ کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا اس کو اپنے سامنے دیکھ کر ،وہ آہستہ آہستہ شرماتے ہوئے اس کے پاس چلی جاتی ہے ،اور شرماتے شرماتےسلام کرتی ہیے ،انجم اس کو دیکھ کر مسکرانا شروع کر دیتی ہے ،ان دونوں کی ملاقات ہوتی ہے ،انجم بھی اس سے مل کر خوش ہوتی ہے ،
خدیجہ: میں پڑھائی کے سلسلہ میں آپ سے ملنا چاہتی تھی اور بات کرنا چاہتی تھی ،آپکو اس بات کا اچھی طرح علم ہے ،میرے دادا جان پڑھائی کے معاملے میں اس قدر سخت ہیں ،مجھے پڑھنے کاجنون کی حد تک شوق ہے ،انجم کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کیا میرا ساتھ دیں گی ،اب آپ کے ہاتھ میں ہے میں آپ کے ذریعے سے ہی اپنے خوابوں کو پورا کر سکتی ہو ،خدارا انکار مت کیجئے ،
آپکامجھ پر یہ بہت بڑا احسان ہوگا ،
انجم: آپ میرے بابا جان کے بارے میں تو اچھی طرح ہی جانتی ہیں وہ ھی بہت زیادہ سخت ہیں بچیوں کی تعلیم کے معاملہ میں ،اس لیے انہوں نے مجھے ماموں کے گھر سے بلوا لیا ، تاکہ میں مزید نہ پڑھ سکوں، اور پڑھائی کو چھوڑ کر مجھے ایک پل بھی سکون نہیں مل رہا ، نا یہاں کوئی میری سہیلی ہے ،جس کے ساتھ میں بات چیت کر سکوں ،
انجم خدیجہ کو یہ سب بتاتے ہوئے بہت افسردہ ہو جاتی ہے ،
خدیجہ اس کو تسلی دیتے ہوئے کہتی ہے ،میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں،بلاناغہ پاس آیا کرو گی ،یہ باتیں سنتے ہی انجم کو کچھ تسلی ہوتی ہے ،انجم خدیجہ کو سمجھانا شروع کر دیتی ہے، کہ جب میرے ابا جان گھر بیٹھے ہوں پڑھائی کی کوئی بات نہیں کرنی،ورنہ وہ ہم دونوں کا ملنا جلنا بندکردیں گے خدیجہ :آپ فکر نہ کرجیسا آپ کہیں گی ویسا ہی ہوگا ،
انجم اپنے کام میں مصروف ہو جاتی ہے ،اورخدیجہ سیڑھیاں اتر کر گھر آ جاتی ہے،آج وہ بہت زیادہ خوش ہے ، سیڑھیوں سے ہی آوازیں لگانا شروع کر دیتی ہے ،عائشہ کہاں ہو عائشہ کہاں ہو ،بہت بڑی خوشخبری ہے ،خدیجہ خوشی میں یہ بھول جاتی ہے ،اس وقت اس کے داداجان چائے پینے گھر آتے ہیں ، دادا جان گرجدار آواز میں کہتے ہیں ، تیری ماں نے تجھے تمیز نہیں سکھائی ،لڑکیاں اونچی آواز میں نہیں بولتی ،ایسی کیا آفت ٹوٹ پڑی جو چھت سے ہی چیخنا شروع کر دیا ،وہ مارے ڈر کے کچھ بھی نہیں بول رہی،
کیا خوشخبری ہے ۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے
#لکھاریاں,
#قلمکاریاں,
#فنکاریاں,
#اردو_ادب,
#اردو_شاعری,
اُردو ادب ، اردو شاعری ، اردو نثر پر بہترین ویڈیوز حاصل کرنے کےلئے ہمارا چینل سبسکرائب کریں۔
قلمکار سٹوڈیو ۔ اردو ادب میں انفرادیت کا معیار
POST A COMMENT.