- اُس دور میں ماسٹر اگر بچے کو مارتا تھا تو بچہ گھر آکر اپنے باپ کو نہیں بتاتا تھا اور اگر بتاتا تھا تو باپ اُسے ایک اور تھپڑ رسید کر دیتا تھا۔
- یہ وہ دور تھا جب ” اکیڈمی “ کا کوئی تصور نہ تھا ٹیوشن پڑھنے والے بچے نکمے شمار ہوتے تھے۔
- بَڑے بھائیوں کے کپڑے چھوٹے بھائیوں کے استعمال میں آتے تھے اور یہ کوئی معیوب بات نہیں سمجھی جاتی تھی۔
- لڑائی کے موقع پر کوئی ہتھیار نہیں نکالتا تھا صرف اتنا کہنا کافی ہوتا تھا کہ ” میں تمہارے ابا جی سے شکایت کروں گا “ یہ سنتے ہی اکثر مخالفینِ فریق کا خون خشک ہو جاتا تھا۔
- اُس وقت کے ابا جی بھی کمال کے تھے صبح سویرے فجر کے وقت کڑکدار آواز میں سب کو نماز کے لیے اٹھا دیا کرتے تھے بے طلب عبادتیں ہر گھر کا معمول تھیں۔
- کسی گھر میں مہمان آ جاتا تو اِردگرد کے ہمسائے حسرت بھری نظروں سے اُس گھر کودیکھنے لگتے اور فرمائشیں کی جاتیں کہ ” مہمانوں “ کو ہمارے گھر بھی لے کر آئیں جس گھر میں مہمان آتا تھا وہاں پیٹی میں رکھے فینائل کی خوشبو میں لبے بستر نکالے جاتے خوش آمدید اور شعروں کی کڑھائی والے تکیئے رکھے جاتے مہمان کے لیے دھلا ہوا تولیہ لٹکایا جاتا اور غسل خانے میں نئے صابن کی ٹکیا رکھی جاتی تھی۔
- جس دن مہمان نے رخصت ہونا ہوتا تھا سارے گھر والوں کی آنکھوں میں اداسی کے آنسو ہوتے تھے مہمان جاتے ہوئے کسی چھوٹے بچے کو دس روپے کا نوٹ پکڑانے کی کوشش کرتا تو پورا گھر اس پر احتجاج کرتے ہوئے نوٹ واپس کرنے میں لگ جاتا تاہم مہمان بہرصورت یہ نوٹ دے کر ہی جاتا۔
- شادی بیاہوں میں سارا محلہ شریک ہوتا تھا خوشی غمی میں آنے جانے کے لیے ایک جوڑا کپڑوں کا علیحدہ سے رکھا جاتا تھا جو اِسی موقع پر استعمال میں لایا جاتا تھا جس گھر میں شادی ہوتی تھی اُن کے مہمان اکثر محلے کے دیگر گھروں میں ٹھہرائے جاتے تھے محلے کی جس لڑکی کی شادی ہوتی تھی بعد میں پورا محلہ باری باری میاں بیوی کی دعوت کرتا تھا۔
- کبھی کسی نے اپنا عقیدہ کسی پر تھوپنے کی کوشش نہیں کی کبھی کافر کافر کے نعرے نہیں لگتے تھے سب کا رونا ہنسنا سانجھا تھا سب کے دُکھ سکھ ایک جیسے تھے۔
- سب غریب تھے مگر سب خوشحال تھے کسی کسی گھر میں بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی ہوتا تھا اور سارے محلے کے بچے وہیں جاکر ڈرامے دیکھتے تھے دوکاندار کو کھوٹا سکا چلا دینا ہی سب سے بَڑا فراڈ ہوتا تھا لیکن آج ۔۔۔؟
#قلمکاریاں
#لکھاریاں
POST A COMMENT.