میں نے ہاتھ کا اشارہ کیا۔ ٹیکسی رک گئی۔
’’مجھے فوارہ چوک تک جانا ہے۔‘‘ میں نے ڈرائیور سے کہا۔
’’آپ کو کہیں بھی جانا ہو اندر تشریف لے آئیں۔‘‘
ڈرائیور نے ایسے مؤدبانہ لہجے میں کہا جو ہمارے ہاں تقریبا ناپید ہے۔ میں ٹیکسی میں بیٹھتے ہوئے سوچنے لگا کہ ہمارے ہاں اچھے اور ایمان دار لوگ کم ضرور ہیں، بالکل ختم نہیں ہو گئے۔ کوئی پندرہ منٹ بعد میری منزل آگئی۔
میٹرستائیس روپے دکھا رہا تھا۔میں نے پچاس روپے کا ایک نوٹ ٹیکسی ڈرائیور کی طرف بڑھایا۔ وہ سر ہلا کر بولا:
’’میرے پاس کھلے نہیں ہیں۔‘‘
میں نے اپنی جیبیں دوبارہ ٹٹولیں اور ایک دس دس کے تین نوٹ تلاش کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
’’میرے پاس تین روپے بھی نہیں…‘‘ ڈرائیورنے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا۔
’’کوئی بات نہیں…‘‘میں فراخ دلی سے مسکرایا۔’’یہ تین روپے تم رکھ لو۔‘‘
’’میں بخشش نہیں لیتا۔‘‘
’’مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ہمارے ملک میں ایسے لوگ بھی ہیں، مگر اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‘‘
’’وہاں بائیں طرف نکّڑ پر سپر یوٹیلٹی اسٹور ہے۔ ہم وہاں سے پیسے کھلے کروا سکتے ہیں۔‘‘
اسٹور بائیں طرف گلی میں تھا، مگر وہ یک طرفہ راستہ تھا۔ ہم بائیں جانب نہیں مڑ سکتے تھے، چناں چہ ہم سیدھے گئے اور ایک لمبا چکر کاٹ کر واپس ہوئے۔ یوٹیلٹی اسٹور کے سامنے پہنچے تو دن کا ایک بج چکا تھااور اسٹور پر دوپہر کے کھانے کے وقفہ کے لیے بند ہو چکا تھا۔ میںنے ٹیکسی کے میٹر پر نظر ڈالی تو وہ بیالیس روپے دکھا رہا تھا، میں نے معاملہ نمٹانے کی غرض سے کہا، ’’تقریباً پچاس روپے ہو گئے۔‘‘
ڈرائیور نے شاید میری مرضی بھانپ لی، بولا: ’’دیکھیے میرے پاس کھلے آٹھ روپے نہیں ہیں اور یہ یاد رکھیے کہ میں بخشش نہیں لیا کرتا۔‘‘
’’یہ تو قابل تقلید مثال ہے۔‘‘
میں نے اس کی تعریف کرتے ہوئے کہا اور دل ہی دل میں دانت پیسنے لگا۔
’’ایسا کرو کہ پھرمجھے آٹھ روپے کی سیر اورکرا دواور اس ٹیکسی سے میری جان چھڑاؤ۔‘‘
’’ہاں یہ ٹھیک ہے۔‘‘ ڈرائیور نے گیئر لگاتے ہوئے کہا۔
میری نظریں میٹر پر تھیں جیسے ہی پچاس روپے پورے ہوئے،میںنے چیخ کر ڈرائیور سے کہا،’’ بس یہیں روک دو، روک دو!‘‘
’’سوری سر!‘‘ ڈرائیور نے اسی رفتار سے گاڑی چلاتے ہوئے کہا،’’ یہاں رکنا قانوناً منع ہے، آپ سامنے لگا ہوا ٹریفک کا بورڈ نہیں دیکھ رہے؟‘‘
’’تو پھر میٹر بند کردو۔‘‘
’’یہ بات اصول کے خلاف ہے۔‘‘ ڈرائیور بڑی شائستگی سے بولا۔ ’’جب گاڑی میں سواری موجود ہو تو میٹر کو لازماً چلتے رہنا چاہیے۔‘‘
جب ہم ایسی جگہ پہنچے جہاں قانون کی دھجیاں بکھیرے بغیر ہم ٹھیر سکتے تھے تو میٹر پر 67 کا ہندسہ نظر آرہا تھا۔ میرے منہ سے ایک آہ نکل گئی۔
’’اتنا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔‘‘ ڈرائیور نے مجھے تسلی دی۔ ’’چلیے،ہم اس کا کوئی اور حل سوچتے ہیں، کچھ آگے ایک بینک ہے،میرا ایک دوست وہاں کیشیر ہے، وہ ہمیں فوراً پیسے کھلے کرا دے گا۔‘‘
وہاں پہنچے تو یہ دیکھ کر سخت مایوسی ہوئی کہ بینک بند تھا۔ باہر کھڑے چوکی دار نے بتایا کہ آج بینک کا ’ہاف ڈے‘ تھا۔ میرا دل ڈوبنے لگا۔ مگر ٹیکسی ڈرائیور بڑا باہمت انسان تھا، اس نے ٹیکسی پھر اسٹارٹ کی تومیں نے پوچھا:
’’اب کہاںجارہے ہو؟‘‘
’’قومی بچت مرکز والے آج کے دن ’ہاف ڈے‘ نہیں کرتے، وہاں چلتے ہیں۔‘‘
اس کی بات درست نکلی۔ وہ واقعی آدھے دن کی چھٹی نہیں کرتے، مگر مرکز بند تھا کیوں کہ وہ پورے دن کی چھٹی کرتے ہیں۔
خوش قسمتی سے اب میٹر پر پورے اسّی روپے بن گئے تھے۔ایک کم نہ ایک زیادہ۔ میں نے ڈرائیور کو ٹیکسی روکے رکھنے کو کہا، کیو ں کہ اس کی ٹیکسی کی ایک ذرا سی حرکت سے سارا میزان گڑبڑ ہو سکتا تھا اور جیب سے 80روپے نکال کر اس کے حوالے کر دیے۔
ڈرائیور نے شکریہ ادا کر کے رقم قبول کی اور جیب میں رکھتے ہوئے بولا، ’’قسم سے مجھے دلی افسوس ہے کہ واقعات اس طرح سے پیش آئے اور آپ کو بہت زیادہ زحمت اٹھانی پڑی، مگر میں اپنے ضمیر کا کیاکروں جو حلال کرائے کے علاوہ ایک پائی لینا بھی حرام سمجھتا ہے۔‘‘ میں نے اس کے ضمیر اور اس کے نتیجے میں پہنچنے والے نقصان پر لعنت بھیجی اور سر ہلا کر خاموش ہو گیا۔
اچانک مجھے ایک خیال آیا۔ میں نے ٹیکسی ڈرائیور سے کہا، مگر مجھے تو فوارہ چوک جانا تھا اور اب ہم اس سے کافی آگے آ گئے ہیں۔‘‘
’’تو کیا ہوا؟!‘‘ ڈرائیورپہلے کی سی خوش مزاجی سے بولا، ’’میں ابھی آپ کو وہاں پہنچا دیتاہوں، پندرہ منٹ بعد ہم پھر فوارہ چوک پہنچ گئے۔ میٹر پر نظر پڑی تو وہ پھر ستائیس روپے دکھا رہا تھا۔
#قلمکاریاں
#لکھاریاں
POST A COMMENT.