دس اصول

دس اصول 

صوفی صاحب دنیا کی رنگنیوں سے بے نیاز ایک پرانے پھٹے ہوئے صوفے کے اندر دھنسے ہوئے کوئی کتاب پڑھ رہے تھے ۔ میں نے بڑے ادب سے جا کر ان کے قریب سلام کیا تو انہوں نے میری طرف دیکھے بغیر ہی زور کا "ہوں” کیا تو میں ان کے قریب ہی اس صوفہ نما چیز میں دھنس گیا۔ صوفی صاحب کے انہماک میں کوئی فرق نہیں آیا تو میں نے غور سے دیکھا کہ وہ کیا پڑھ رہے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں فیض احمد فیض کا نسخہ ہائے وفا تھی۔ وہ بڑے انہماک سے دونوں ہاتھوں سے کتاب کو پکڑے آنکھوں پر نظر کی باریک سی عینک ٹکا کر اس کا مطالعہ کر رہے تھے ۔ وقتا فوقتا وہ اپنی شہادت کی انگلی کو اپنی زبان کی مدد سے تر کر لیتے اور اس سے صفحہ پلٹنے کا کام لے رہے تھے ۔ کچھ دیر بعد میں نے ایک بار کھنکھار کر انہیں اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے اپنے چشمے نیچے آنکھیں نکال کر میرے طرف دیکھا اور دوبارہ کتاب کی طرف متوجہ ہو گئے ۔

صوفی صاحب سے میرا تعارف میرے ایک دفتر کے ساتھی کی وجہ سے ہوا تھا وہ ہر جمعرات کی رات کو صوفی صاحب ک پاس حاضر ہوتا تھا اور مجھے اکثر کہا کرتا تھا کہ تم کو صوفی صاحب سے ملنا چاہیے۔ میں ہر بار ہنس کر ٹال دیتا ایک دن میں اس کے اس انکشاف پر صوفی صاحب بھی شعر وادب کے دیوانے ہیں میں اس کے ساتھ چل دیا۔ اس کے بعد صوفی صاحب سے ملاقات کا سلسلہ چل نکلا کبھی اکیلے کبھی اپنے دوست کے ساتھ ۔ ان کا تعلق پاکستان کے ضلع گوجرانولہ سے تھا۔ شارجہ میں ان کی ایک بجلی کے سامان کا بزنس تھا۔ صوفی صاحب کی سچی بات یہ ہے کہ مجھے آج تک پوری طرح سمجھ نہیں آ سکی ہے ۔ کبھی وہ مجذوب ہوتے ہیں تو کبھی وہ صوفی ۔ کبھی شاعر ہوتے ہیں تو کبھی رنگین مزاج کھلنڈرے لڑکے ۔ کبھی کبھی وہ ایسے لطیفے بھی سناتے ہیں کہ میرے جیسے بندے کے کان بھی سرخ ہو جاتے ہیں اور کبھی وہ ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں کہ بندہ ان پر سر دھنا رہ جائے ۔

کافی دیر بعد شاید صوفی صاحب کو مجھ پر رحم آگیا انہوں نے کتاب ایک طرف رکھی اور کہا ہاں بھئی منڈیا دس فئیر کی حال نے۔ ان کے منہ سے منڈے کا لفظ سن کر مجھے تھوڑا سا اچھا تو لگا مگر میں نے منافقانہ عاجزی سے کہا کہ صوفی صاحب میں اب منڈا کہا رہ گیا ہوں اب تو میری ہم عصر خواتین بھی مجھے انکل کہتی ہیں ۔ میری اس بات پر صوفی صاحب نے ایک بلند اہنگ قہقہہ لگایا اور کہا کہ توکیا اب تمہیں وہ بیٹا بولیں۔ اس بات پر ہم دونوں کھلکھلا کر ہنس دیئے۔ انہوں نے وہیں بیٹھے اندر کے دروازے کی طرف منہ لگا کر کہا۔ چوہدری ۔ اوچوہدری ۔ یار چائے تے بنا دے ۔ اچھا صوفی صاحب اندر سے چوہدری کی آواز سنائی دی جو ان کی دکان پر ہی کام کرتا تھا۔

صوفی صاحب میں تو سمجھا تھا کہ آپ بھی آج باہر کی رنگنیاں سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے ۔ میں نے بات شروع کی۔ آج تو نیا سال شروع ہونے والا کوئی بتیاں دیکھنے نہیں گئے ۔ میں تو سمجھا کہ آپ آج یہاں نہیں ملیں گے آپ کو پانا ہو تو دبئی مال میں برج خلیفہ کے پہلو میں تلاش کرنا چاہیے مگر حیرت ہے کہ آپ تو یہاں بیٹھے ہیں۔ انہوں نے اپنے پائوں صوفی پر سمیٹتے ہوئے کہا کہ یار ہم نے باہر کی رنگنیاں کیا کرنی ہیں جب انسان کے دل میں رنگنیاں بھر جائیں تو بس وہی ہی دکھائی دیتی ہیں اور وہی دکھائی دیتا ہے ۔ انہوں نے پہلے دل پر ہاتھ رکھا اور پھر آسمان کی طرف انگلی کر کے اپنی بات مکمل کی ۔ میں نے کہا صوفی صاحب آپ کا تجربہ ، آپ کی زندگی مجھ سے بہت زیادہ ہے ۔ آپ نے دنیا دیکھ رکھی ہے دن میں بھانت بھانت کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے ۔ چاہیے وہ کسی نسل ، زبان، رنگ، ملک سے تعلق رکھتے ہوں آپ سب سے ملتے ہیں آپ نے زندگی میں بہت کچھ سیکھا ہو گا ۔ میں چاہتا ہوں کہ نئے سال میں میرے گھر میں برکت ہو تو کیا کروں۔ انہوں نے میری طرف دیکھا اور کہا درخت لگائو۔ میں ان کے جواب پر حیران رہ گیا ۔ کیا مطلب ۔ میں نے اپنی جہالت سے پوچھا۔ دیکھو درخت جو ہیں یہ برکت کا ایک ذریعہ ہیں اگر تم چاہتے ہو کہ تم برکت حاصل کرو تو درخت لگائوں اور اگر خاص طور پر درخت تمہارے گھر میں ہے تو اس کو کبھی کاٹو مت ۔ جس لوگ انے گھر سے درخت کاٹ دیتے ہیں اپنی برکت کی نسیں اور رگیں کاٹ دیتے ہیں۔ نتیجا اس گھر سے اوران کے مکینوں سے برکت رخصت ہو جاتی ہے۔ میں ششدر رہ گیا۔ میں اپنے رزق میں کوئی رکاوٹ نہیں چاہتا ہوں ۔ میں نے دوسرا سوال داغا۔ تو پھر تم اپنے گھر کے باہر چونٹیوں، پرندوں کے دانہ پانی کا بندوبست کرو۔ نہ تمہارا رزق رکے گا اور نہ ہی اس میں اضافہ رکے گا۔ انہوں نے بڑے سکون سے جواب دیا۔ میں چاہتا ہوں کہ میری عزت اور بھرم قائم رہے ۔ میں نے فوری طور پر تیسرا سوال کیا کیونکہ وہ اس چائے کے کپ کو دیکھ رہے تھے جو ابھی چوہدری ہمارے ہاتھ میں تھما کر گیا تھا اور مجھے معلوم تھا کہ وہ ایک بار چائے کی چسکی لگا لیں تو پھر وہ چائے پر بات کرنا شروع ہو جائیں گے ۔ مگر انہوں نے کپ کو تھامے ہوئے کہا ۔ تم مخلوق کی ستر پوشی کرو ۔ خدا تمہاری پردہ پوشی کرے گا۔ غریبوں مساکین میں غریب کی بیٹیوں کےلئے کپڑے لے جائوخدا تمہاری عزت کو کبھی کم نہیں ہونے دے گا۔ میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ میری اولاد بھی نیک اور راہ راست پر ہو۔ میں نے چائے کی چسکی لے کر فوری طور پر میرے دماغ میں جو سوال ابھر وہ پوچھا ۔ غریب بچیوں کی شادی کا بندوبست کروایا۔ انہیں اپنے گھروں میں آباد کروائو اور اپنی اولاد سے بے فکر ہو جائو. انہوں نے بے فکری سے جواب دیا۔ میری زندگی میں اطمینان کی بھی کمی ہے اس کے بارے میں آپ کہیں گے ۔ اب مجھے انہیں کسی طرح سے انہیں لاجواب کرنے کی فکر لاحق ہو گئی تھی ۔ اگر اطمینان پانا ہے تو مخلوق کو کھانا کھلانا شروع کر دو۔ تواضع نہ صرف اطمینان کی دین ہے بلکہ رزق کی فراوانی کی وجہ بھی ہے اور اگر تم صحت مند رہنا چاہتے ہو تم ہر مہینے کسی مریض کا علاج کروا دو۔ کسی غریب کی دوا دارو کا بندوبست کر دوتم سے بیماریاں دوررہیں گی۔ انہوں نے میرے اگلے سوال کا خود سے ہی جواب دے دیا۔ آپ کے ان نسخوں میں کوئی دوسری دنیاوی مشکلات کا علاج بھی ہے ۔ میں نے اب اس یقین سے کہا کہ اب تو صوفی صاحب پھنس گئے ۔ ہمم انہوں نے چائے کا خالی کپ صوفے کے کونے میں رکھتے ہوئے زور سے کہا۔ تو پھر تم کسی جگہ پر کوئی گلی ، کوئی سرک یا کوئی راستہ ٹھیک کر دو جس سے لوگوں کی مشکلات کم ہو جائیں۔ تمہاری مشکلات بھی ختم ہو جائیں گی ۔ صوفی صاحب آپ کی باتوں سے مجھے ڈپرپشن ہونے لگا ہے ہر بات کا جواب ہے آپ کے پاس ۔ میں نے چائے کی اخری چسکی لی اور کپ صوفے کے دوسرے کونے میں رکھ دیا۔ تو یار تم اپنے گھر کے پاس ایک ٹھنڈے پانی کا کولر لگا دو ۔ کسی غریب کے گھر نلکا موٹر لگوا دو ۔ کسی گائوں میں پینے کے پانی کا بندوبست کردو۔ تمہاری یہ مشکل بھی حل ہوجائے گی۔ اب میں لاجواب ہو گیا تھا۔ انہوں نے صوفے پر ہی رکھی ہوا فیض احمد فیض کا نسخہ ہائے وفا اٹھایا اور مجھے دے کر بولے کہ اگر زندگی میں اچھے دوست چاہیے تو کتابیں دینا شروع کردو۔ ان کی بات میرے دماغ میں کہیں دور جا کر لگی اور میں نے ان کے ہاتھ سے کتاب لے کر اپنی گود میں شکریہ کے ساتھ رکھ لی ۔ اور زندگی کا دسواں اصول سادگی اختیار کرو طاقتور ہو جائو گے ۔ نبیوں سے لے کر ولیوں تک سب لوگ سادہ ہی تھے سادگی اختیار کرو۔ انہوں نے صوفے پر دراز ہو کر کہا ۔ میں نے اپنی مہنگی گھڑی میں وقت دیکھا بارہ بجنے میں پانچ منٹ باقی تھی ۔اچھا صوفی صاحب میں چلتا ہوں میں نے انہیں ہاتھ ملایا اور باہرنکل گیا ۔ میں نے کورنیش پر نئے سال کی خوشی میں ہونے والا آتش بازی کا مظاہرہ دیکھنا تھا۔

Facebook Comments

POST A COMMENT.